Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 145
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ١ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) فِي : میں الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ : سب سے نیچے کا درجہ مِنَ : سے النَّارِ : دوزخ وَلَنْ تَجِدَ : اور ہرگز نہ پائے گا لَھُمْ : ان کے لیے نَصِيْرًا : کوئی مددگار
بلاشبہ منافقوں کیلئے یہی ہوتا ہے کہ دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ڈالے جائیں اور کسی کو بھی تم ان کا رفیق و مددگار نہ پاؤ
منافقین کا گروہ ہی وہ گروہ ہے جو دوزخ کے سب سے نچلے حصہ کا مستحق ہے : 233: ہر منافق فی الحقیقت کافر ہی ہوتا ہے بلکہ ایک لحاظ سے وہ کافر سے زیادہ مجرم ، کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اپنے جرم کفر پر ایک مزید جرم مکرو فریب کا اضافہ کیے ہوئے ہوتا ہے اس لئے حق یہی ہے کہ اس کو ایک کھلے کافر سے بھی زیادہ سخت سزا ملنی چاہئے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سزا جرم کے مطابق ہو۔ ظاہر ہے کہ جرم اس کا ایک کھلے کافر سے بڑا ہے اس لئے اس کی سزا بھی قرآن کریم نے سخت بیان فرمادی کہ ” منافق دوزخ کے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور یہ بات یاد رہے کہ اوپر کو بڑھنے کو ” درج “ اور نیچے کی طرف جانے کو ” درک “ کہتے ہیں اس لئے یہ بیان کیا گیا ؟ جنت میں تو درجات ہیں اور دوزخ درکات ہیں کہ جنت میں جنتیوں کے مقامات کو درجات میں بلند کیا جائے گا اور دوزخ کے عذاب میں دوزخیوں کے مقامات کو نیچے سے نیچے گہرائی میں ڈالا جائے گا۔ اور درک سمندر کی گہرائی کو بھی کہا جاتا ہے اور اس سے لفظ ادراک بھی ہے یعنی بات کی تہ تک پہنچ جانا۔
Top