Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 146
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ تَابُوْا : جنہوں نے توبہ کی وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی وَاعْتَصَمُوْا : اور مضبوطی سے پکڑا بِاللّٰهِ : اللہ کو وَاَخْلَصُوْا : اور خالص کرلیا دِيْنَھُمْ : اپنا دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاُولٰٓئِكَ : تو ایسے لوگ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے ساتھ وَسَوْفَ : اور جلد يُؤْتِ اللّٰهُ : دے گا اللہ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَجْرًا عَظِيْمًا : بڑا ثواب
ہاں ! جن لوگوں نے توبہ کرلی اپنی عملی حالت سنوار لی ، اللہ پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے اور اپنے دین میں صرف اسی کیلئے ہوگئے تو ایسے لوگ مومنوں کی صف میں ہوں گے اور قریب ہے کہ اللہ مومنوں کو اجر عطا فرمائے ایسا اجر جو بہت بڑا اجر ہو گا
جو نفاق کے مرض سے شفا پا گیا اور سچا مومن ہوگیا اس ک اجر یقینا محفوظ ہے : 234: قریب المرگ ہو کر اگر پھر کوئی کچھ وقت کے لئے موت کے منہ سے نکل آیا تو وہ یقینا اللہ کے احسان کا مستحق ہوگیا۔ اب تو اس کو زیادہ احتاوط کی ضرورت ہے۔ نفاق کا مرض بھی بڑا مہلک مرض ہے اگر اس مرض سے کسی کو اللہ نے شفا بخش دی تو وہ بہت بڑے انعام کا مستحق قرار پایا اور اللہ نے اس پر بڑا فضل کیا کہ دوزخ کی آگ سے اس کو ایک طرح کا نکال لیا گیا۔ اس آیت نے یہ بات بھی واضح کردی کہ خالی ایمان کا عویٰ بھی شاید دعویٰ کرنے والے کے لئے کچھ مفید ہو سکتا ہے فرمایا مفید نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوگا لیکن ہاں ! جو شخص توبہ کر کے سچا ایمان قبول کرلے اور تذبذب سے باہر نکل کر ایمان کی زندگی قبول کرلے تو وہ یقیناخوش بخت ہوگیا پھر فرمایا کہ ایسے لوگوں کی توبہ کیا ہے ؟ توبہ یہ ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو دل و جان سے قبول کرلیں۔ بغیر کسی تذبذب اور ریا کے اگر یہ بات میسر آگئی تو سمجھ لو کہ ان کا انجام بخیر ہوگیا اور وہ یقینا مسلمانوں کے ساتھ ہوں گے اور اس سچی توبہ کا اجر بھی عنداللہ پائیں گے۔ روٹھ کر جانے والا اگر ایک مدت گزرنے کے بعد بھی واپس آجائے تو گھر والوں کو خوشی ہوتی ہے اور اس خوشی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کوئی گناہ ایسا نہیں جو پدں ائشی اور موروثی ہو کہ وہ ناقابل اصلاح ہوجائے بلکہ ہر گناہ خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو بہرحال اختیاری ہے اور اختیار چیز کسی وقت بھی چھوڑی جاسکتی ہے۔ یہ عذر کسی حال بھی درست نہیں کہ اس کا چھوڑنا ممکن نہ ہو۔ بات صرف ایمان و یقین کی ہے اور دل کے پختہ ارادہ کی۔ انسان جب بھی سوچ لے وہ اس دلدل سے نکل سکتا ہے۔
Top