Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 84
فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَوْا : انہوں نے دیکھا بَاْسَنَا : ہمارا عذاب قَالُوْٓا : وہ کہنے لگے اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَحْدَهٗ : وہ واحد وَكَفَرْنَا : اور ہم منکر ہوئے بِمَا : وہ جس كُنَّا : ہم تھے بِهٖ : اس کے مُشْرِكِيْنَ : شریک کرتے
پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے واحد پر ایمان لائے اور جن کو ہم اس کا شریک ٹھہراتے تھے ہم ان سے منکر ہوئے
جب ان کو عذاب نے آلیا انہوں نے ایمان کا اقرار کرنا شروع کرد یا 84۔ ہر رسول کی دعوت اور ہر رسول کی قوم کی مخالفت ایک لمبی مدت تک چلتی رہی اور کسی قوم نے بھی اپنے نبی ورسول کے بیان کردہ دلائل کو تسلیم نہ کیا اور نہ صرف یہ کہ اس کے دلائل کو تسلیم نہ کیا بلکہ اس کو طرح طرح سے مذاق اور استہزا کا نشانہ بنایا لیکن انجام کار جب وہ قوم اپنے کیے کی پاداش میں پکر لی گئی تو وہ پکار اٹھی کہ ہم اس اللہ وحدہ لا شریک لہ پر ایمان لائے اور ہم نے اپنے ان شریکوں سے انکار کیا جن کی دہایاں آج تک ہم دیتے رہے۔ غور کرو فرعون نے کتنی مدت تک موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی اور کیا کیا نشانات کا مطالبہ کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کر کے اس کے ہر مطالبہ کو پورا کرایا لیکن ہر بار اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر اس کی بات کو واگزار کردیا اور انجام کار اللہ رب کریم کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) کو سبق سکھانے کے لیے نکل کھڑا ہوا اور بنی اسرائیل کو آگے کی طرف سے پکڑنے کے لیے جب بنی اسرائیل بحرقلزم کو پار کر رہے تھے ان کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن جب مع اپنے لائو لشکر کے پانی میں مکمل طور پر داخل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا حکم نازل ہوگیا اور پانی کو حکم ہوا کہ ان میں سے ایک بھی بچ کر نہ جائے ابھی دو گھونٹ پانی فرعون کے منہ کے اندر داخل ہوا اور پہلی ڈبکی پر جو عذاب الٰہی کی ڈبکی تھی تھرتھرا گیا اور بول اٹھا کہ ” میں اس رب پر ایمان لایا جو بنی اسرائیل کا رب ہے “ لیکن اس کا جواب دیا گیا کہ ” اب تو ایمان لاتا ہے اور آج تک تو نافرمانی کرتا رہا ، اب وہ وقت تو نکل گیا کہ تیرے ایمان کی کوئی قیمت پڑے گی کیونکہ عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ایمان لانا کسی کے لیے بھی مقبول نہیں ہوتا یہ وعدہ الٰہی ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کرتا۔ فرعون ساری قوموں کے لوگوں سے زیادہ اکھڑ تھا قرآن کریم نے اس کا ذکر وضاحت سے کردیا اور باقی قوموں کے لوگوں کی حالت کو مجمل طور پر ارشاد فرمایا کہ وہ عذاب الٰہی کو دیکھ کر اللہ وحدہ لا شریک لہ پر ایمان لانے کا اعلان کرتے رہے لیکن وقت نکل جانے کے بعد کسی کے اعلان سے کیا ہوتا ہے اس کی تفصیل آنے والی آیت پیش کر رہی ہے۔
Top