Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 46
اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ
اَفَنَضْرِبُ : کیا بھلا ہم چھوڑ دیں عَنْكُمُ الذِّكْرَ : تم سے ذکر کرنا صَفْحًا : درگزر کرتے ہوئے۔ اعراض کرنے کی وجہ سے اَنْ كُنْتُمْ : کہ ہو تم قَوْمًا : ایک قوم مُّسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والی
کیا ہم تم سے اس نصیحت کو اس لیے ہٹا لیں گے کہ تم (اپنی سرکشی میں) حد سے بڑھ گئے ہو
کیا اب تم لوگوں سے بیزار ہو کر ہم اس ذکر کو اتارنا روک دیں ؟ 5 ؎ اس آیت میں نبی کریم ﷺ کی بعثت سے لے کرتا نزول آیات جو کچھ ہوا وہ سب کا سب بند کر کے رکھ دیا گیا گویا چھ سات سال کی تاریخ کو کو زے میں بند کردیا گیا۔ نضرب عنکم۔ الضرب یقع علی جمیع الاعمال الا قلیلا۔ ضرب کا لفظ بہت کاموں پر بیان ہوتا ہے۔ اضربت عن الشی کے معنی ہیں اس سے روک دیا گیا یا اس سے رُک گیا اور اعراض کیا اور ضرب عنہ الذکر اور اضرب عنہدونوں کے معنی ہیں صرفہ اس سے پھیر دیا۔ سوار جب اپنی سواری کے جانور کو دوسری طرف پھیرنا چاہتا ہے تو اس کو مارتا ہے تاکہ اس کو دوسری طرف پھیر دے اس لیے ضرب صرف ہوگیا اس لیے کہا جاتا ہے کہ ضربت فلانا عن فلاں کہ فلاں نے فلاں سے اس کو پھیر دیا ہے۔ صفحاً صفح کے معنی جنب کے ہیں کیونکہ ہر ایک چیز کے صفح اس کی جانب ہی ہوتی ہے اور اس جگہ صفحہ کے معنی اعراض کے ہیں کیونکہ صفح عن فلان کے معنی ہیں کہ فلاں سے پیٹھ پھیرتے ہوئے اس سے اعراض کیا۔ امطلب یہ ہے کہ ایک قوم جب خطاکاری میں حد سے گزر گئی ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کو اس اعراض میں چھوڑ دے اور اس کو نصیحت نہ کرے گویا کوئی قوم کتنی ہی خطاکار کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کا رحم اس کی ایک نہ ایک دن دستگیری کرتا ہے کیونکہ وہ قوم بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہے وہ تسلیم کرے یا نہ کرے۔ اس کی وضاحت ہم پیچھے اسی جلد کی سورة الزمر کی آیت 53 میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں۔ قومِ فرعون نے حد سے تجاوز کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) ، لوط (علیہ السلام) کو اس کے لیے ہادی و رہنما بنا کر بھیجا گیا اور یہی حال پہلی امتوں کا تھا۔ نوح ، ہود ، صالح ، لوط (علیہ السلام) سب کے حالات آپ پڑھ چکے ہیں ان میں ہر قوم بےراہ رو ہوچکی تھی اور ان کو راہ راست بتانے اور سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان نبیوں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا اور بعینہٖ اسی طرح جب قوم قریش اور مکہ والوں نے حدود الٰہی سے بہت تجاوز کیا تو ان کی طرف نبی اعظم و آخر ﷺ کو مبعوث فرما کر پوری دنیا کے ایک ہی رسول اور نبی بنایا اور ازیں بعد اس وہبی اور عطائی عہدہ کو ختم کر کے آپ کی امت کے ذمہ تعلیم و تبلیغ کا کام لگا دیا گیا جو بحمد اللہ جاری وساری ہے جس حال میں بھی ہے اور پھر آیت کے آخر میں اس کی مزید وضاحت کردی یہ اللہ رب کریم حد سے تجاوز کرنے والوں کو وارننگ دینے سے پہلے کبھی ہلاک نہیں کرتا گویا ہلاک ہونے والوں کو ہلاکت سے قبل یہ ذمہ داری پوری کردی جاتی ہے اور پہلے یہ ذمہ داری ایک قوم کو غرق کرکے دوسری قوم لانے سے پوری کی جاتی تھی اب قوم کو چھوٹے چھوٹے عذابوں میں مبتلا کر کے اس آنے ولاے بڑے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور ان عذابوں میں سب سے بڑا اور سب سے برا عذاب یہ ہے کہ قوم پر ایسے لوگ مسلط کردیئے جائیں جو ظالم اور فاسق ہوں ، جن کو اپنی تجوریاں بھرنے کا خیال ہو اور قوم کی حالت زار کا ذرا خیال نہ آئے ، جو اپنا فائدہ سوچتے ہوں اور قوم کے فائدہ کو قربان کردینے والے ہوں اور بدقسمتی سے آج قوم مسلم اسی عذاب سے دوچار ہے اور خصوصاً اس ملک عزیز کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں جس کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا ہے اور پورے ملک میں ہر طرف شرک کا دور دورہ ہے اور حکومت ہے کہ ظالموں اور فاسقوں کے لیے لازم کردی گئی ہے اس لیے ہر آنے والا جانے والے سے بدتر ہو کر آتا ہے۔
Top