Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 5
اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ
اَفَنَضْرِبُ : کیا بھلا ہم چھوڑ دیں عَنْكُمُ الذِّكْرَ : تم سے ذکر کرنا صَفْحًا : درگزر کرتے ہوئے۔ اعراض کرنے کی وجہ سے اَنْ كُنْتُمْ : کہ ہو تم قَوْمًا : ایک قوم مُّسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والی
اب کیا ہم تم سے بےزار ہو کر یہ درسِ نصیحت تمہارے ہاں بھیجنا چھوڑ دیں صرف اِس لیے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو؟4
سورة الزُّخْرُف 4 اس ایک فقرے میں وہ پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو محمد ﷺ کے اعلان نبوت کے وقت سے لے کر ان آیات کے نزول تک پچھلے چند برس میں ہو گزری تھی۔ یہ فقرہ ہمارے سامنے یہ تصویر کھینچتا ہے کہ ایک قوم صدیوں سے سخت جہالت، پستی اور بدحالی میں مبتلا ہے۔ یکایک اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے۔ وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے کے لیے خود اپنا کلام نازل کرتا ہے، تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو، جاہلانہ اوہام کے چکر سے نکلے اور حقیقت سے آگاہ ہو کر زندگی کا صحیح راستہ اختیار کرلے۔ مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائلی سردار اس رہنما کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں، ان کی عداوت اور شرارت بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اسے قتل کردینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس حالت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تمہاری اس نالائقی کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ؟ اس درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں ؟ اور تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوئے ہو ؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے ؟ تم نے کچھ سوچا بھی کہ خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامنے آجانے کے بعد باطل پر اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔ ؟
Top