Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 53
فَلَوْ لَاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلٰٓئِكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ
فَلَوْلَآ : تو کیوں نہیں اُلْقِيَ : اتارے گئے عَلَيْهِ : اس پر اَسْوِرَةٌ : کنگن مِّنْ ذَهَبٍ : سونے کے اَوْ جَآءَ : یا آئے مَعَهُ : اس کے ساتھ الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے مُقْتَرِنِيْنَ : ساتھ رہنے والے
(غور کرو) کہ اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں پڑے ہوئے ہیں یا فرشتے ہی اس کے ساتھ (اس کے خادم بن کر) کیوں نہ آئے
53 ؎ فرعون وقت کا حکمران بھی تھا اور اقتدار اعلیٰ پر قابض ہونے کے باعث قانون مصر کے مطابق رب اور الٰہ بھی کہلاتا تھا اور اس وقت کے رواج کے مطابق جب کوئی بادشاہ کسی کو کوئی بڑا عہدہ پیش کرتا تھا جیسے کسی علاقہ کا گورنر بنادینا تو اس آدمی کو خلعت فاخرہ بھی پہنائی جاتی تھی اور خلعت فاخرہ میں اس کو سونے کے کنگن بھی پہنائے جاتے تھے تاہک سب کو معلوم ہوجائے کہ یہ شخص حکمران اعلیٰ کے مقربین میں سے ایک ہے۔ چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی ربوبیت اور الوہیت سے انکار کیا تھا اور اس کے مقابلہ میں اللہ رب العلمین کا تصور پیش کیا تھا اور یہ بھی وضاحت کردی تھی کہ اللہ جسمانی نہیں ہے کہ اس کی پہنچان کے لیے اس کو دوسروں کے سامنے لایا جائے کہ یہ ” اللہ میاں “ ہیں فرعون نے بطور مذاق اور استہزاء یہ کہا کہ جب موسیٰ کا دعویٰ ہے کہ میں رب العالمین کا بھیجا ہوا رسول بن کر آیا ہوں تو چاہیے تھا کہ اگر ہم دو کنگن پہناتے ہیں تو اس کو چار پہنائے جاتے ، ہم چار خدام اپنے گورنروں کو دیتے ہیں تو اس کو آٹھ محافظ ونگہبان دئیے جانے چاہیے تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے کے باعث فرشتے ہی ہوتے لیکن ہم نے تو موسیٰ کے پاس کچھ بھی نہیں دیکھا وہ اسی طرح بھوکا اور قلاش انسان ہے جس طرح ہمارے ملک کے دوسرے غریب عوام ہیں دعویٰ اتنا بڑا اور خستہ حالی کا یہ عالم پھر اس کو پاگل نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے لیکن اس کو کون سمجھاتا کہ موسیٰ نے تجھے مخاطب کیا اور اس طرح مخاطب کیا جس طرح کسی عام آدمی کو مخاطب نہیں کیا جاسکتا پھر تیری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کیں اور کوئی اس کے پاس خادم ومحافظ بھی نہیں ہے اور ان ساری باتوں کے باوجود تیری ہمت نے آج تک یہ کام نہیں کیا کہ تو اس ایک نہتے آدمی کو خود ہی ایک وار کرکے ختم کردیتا اور تیری یہ پریشانی خود بخود ختم ہوجاتی جو اس قدر سیخ پا ہے آخر کوئی بات اور کوئی وجہ تو ہے کہ تو موسیٰ پر ہاتھ نہیں اٹھا رہا اگر تجھ سے کوئی پوچھ لے تو آخر تیرے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟ یقینا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی وہ کوئی ایسی بات کہہ سکتا تھا جو اس کا جواب ہوتی۔ رہی دوسروں کو اکسانے کی بات تو اس میں اس نے کوئی کمی نہیں کی لیکن جب قانون الٰہی میں طے تھا کہ موسیٰ کا کوئی شخص بھی بال بیکا نہیں کرسکتا اور اس قانون کا اعلان بھی ہوچکا تھا اور خصوصاً موسیٰ کو فرعون کے پاس بھیجنے سے پہلے اس کی وضاحت کردی تھی جب کہ موسیٰ علہک السلام نے خود اس خطرہ کو محسوس کرکے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ مجھے خیال ہے کہ شاید وہ میرے قتل کے درپے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ اس فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہم تیرے ساتھ تیری حفاظت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اس ضمانت کے بعد کسی نبی ورسول کو اس طرح کا وہم ہو تو آخر کیوں اور کیسے ؟
Top