Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 54
فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
فَاسْتَخَفَّ : تو ہلکایا پایا اس نے قَوْمَهٗ : اپنی قوم کو فَاَطَاعُوْهُ : تو انہوں نے اطاعت کی اس کی اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : تھے وہ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ : فاسق قوم۔ لوگ
پس اس نے اپنی قوم کی عقل گم کردی پس انہوں نے اس کا کہنا مان لیا بلاشبہ وہ نافرمان لوگ تھے
اس نے اپنی قوم کو وبے وزن سمجھا اور بلاشبہ وہ ایسے ہی لوگ تھے 54 ؎ فرعون نے اپنی قوم کو بیوقوف اور احمق بنانے کی کوشش کی اور بلاشبہ اس کی قوم ایسی ہی ثابت ہوئی کیونکہ جو کچھ اس نے بنایا وہ ویسی ہی بن گئی اور پھر بنتی ہی چلی گئی اور اب اس کی حالت یہ تھی کہ وہ دن کو رات کہہ دے تو وہ بھی رات کہہ دیتے اور اگر وہ رات کو دن کہہ دیتا تو وہ بھی ہاں میں ہاں ملادیتے۔ غورکیجئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون نے خود مناظرہ طے کیا اور اس کے لیے ایک دن مقرر کیا ، منادی کرائی ، لوگوں کو اکٹھا کیا ، اپنے مناظرین کو مقابلے میں لایا ، مناظرین نے اپنے دلائل پیش کیے ، لوگوں کو ان کی جیت کا یقین ہونے گا ایسے حالات میں پہنچ کر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنی دلیل کو پیش کیا آپ کی دلیل بحمد اللہ اتنی وزنی تھی کہ سب کے سامنے وہ ان کی ساری دلیلوں کو بھسم کرگئی مناظرین نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اللہ نے ان کی ہمت بندھائی انہوں نے اپنے دلائل کے مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کو وزنی پاکر حق کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگئے فرعون نے دھمکی سنادی اور پھر اس پر عمل کرکے بھی دکھادیا ان کے دل میں حق جاگزیں ہوچکا تھا وہ اپنی جانوں پر کھیل کر حق کی خاطر قربان ہوگئے لیکن فرعون کی ساری قوم نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا اور ٹس سے مس بھی نہ ہوئے اور اسی طرح فرعون کی ہاں میں ہلاں ملاتے رہے ایساکیوں ہوا ؟ فرمایا اس لیے کہ وہ قوم حق سے تجاوز کرنے والی تھی ، وہ حق کو کیونکر قبول کرتی جو حق کو قبول کرتا ہے اس کو حق کے مطابق عمل پیرا ہونا پڑتا ہے اپنی عادات اور اخلاق واطوار کو بدلنا پڑتا ہے۔ بداخلاقیوں اور ظلم وزیادتیوں سے باز آنا پڑتا ہے حق کی پیروی کے لیے جو دشواریاں ان کو پیش آئیں ان کو خوشی سے قبول کرنا پڑتا ہے۔ لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اور بعض اوقات جان عزیز سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کام ہر کہ ومہ کا نہیں اس لیے چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو کی سیاست اختیار کرکے وہ جی ہاں اور ہاں جی کی آسان پٹی کو پڑھتے رہتے ہیں جب حاکم ظلم و فساد کا بازار گرم کرتے ہیں تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور اپنا وہی ہاں جی اور جی ہاں والا فقرہ بولتے رہتے ہیں یہی کچھ فرعون کی قوم نے کیا اور آج بدقسمتی سے قوم مسلم کے حکمران باوجود حکمران ہونے کے غیر مسلم بادشاہوں اور حاکموں کے سامنے وہی ہاں جی والا فقرہ بولتے رہتے ہیں اور اپنی قوم کو دھوکے میں رکھ کر اپنے اقتدار کے نشہ کو بحال رکھے ہوئے ہیں اور اس طرح جو حالت فرعون کی قوم کی تھی وہ حالت آج قوم مسلم کے حاکموں کی ہوکررہ گئی ہے اب یہ فیصلہ تم کرلو کہ اگر فرعون کی قوم بیوقوف اور کم عقل تھی اس لیے وہ فرعون کی ہاں میں ہاں ملاتی تھی تو یہ ہمارے حکمران کیا ہیں جو غیر مسلم حکمرانوں کے سامنے ہاں میں ہاں ملاکر اپنا اقتدار قائم رکھے ہوئے ہیں اگر یہ بات آپ صحیح نہیں سمجھتے تو ہم سے بات کرلیں اور اگر صحیح سمجھتے ہیں تو اپنا فیصلہ دے دیں کہ ان حکمرانوں کو کیا کہیں ؟ یہ ہمارے حکمرانوں کی حالت ہے اور رہے ہمارے مذہبی لیڈر اور راہنما تو ان حاکموں کی ہاں میں ہاں ملاکر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں ان کا نام کیا ہونا چاہیے۔ اگر ہم کہیں گے تو ان کو شکوہ ہوگا ان کا کوئی نام بھی آپ ہی تجویز کرلیں یا اپنے مردوں کو بخشوانے کے لیے ان کا نام رکھنے کی بجائے ہمیں صلٰواتیں سنالیں۔ حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہی رہے گی ان کا نام رکھیں یا ہمیں صلٰوتیں سنائیں۔
Top