Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 52
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ١ۙ۬ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ
اَمْ : بلکہ اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر ہوں مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ : اس (شخص) سے جو هُوَ مَهِيْنٌ : وہ حقیر ہے وَّلَا : اور نہیں يَكَادُ : قریب کہ وہ يُبِيْنُ : وہ واضح بات کرے
کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں جس کو (اس دنیا میں) کچھ منزلت حاصل نہیں اور جو واضح بات بھی نہیں کہہ سکتا (وہ اپنی جماعت کا سربراہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں رکھتا)
کیا میں بہتر ہوں یا وہ شخص جس کی بات ہی واضح نہیں ہے کہ وہ کیا کہتا ہے 52 ؎ غور کرو کہ فرعون اپنا مقابلہ کس شخصیت سے کررہا ہے ؟ ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق جو الفاظ اس نے استعمال کیے ہیں ان پر غور کرو کہ وہ ان کی ذات پر صادق آتے ہیں ؟ لاریب یہ الفاظ خود اس کی ذات پر صادق آتے ہیں لیکن جس کو آمر (Dictator) کہتے ہیں اس کو اس لیے آمر (Dictator) کہتے ہیں کہ اس کی مرضی میں جو آتا ہے وہ کہتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ وہی کچھ کہیں جو میں کہہ رہا ہوں اور اگر کوئی اس طرح نہ کہے تو اس کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ اہل مصر کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی میری مقابلہ میں کیا حیثیت ہے جس کو نہ تو کوئی عزت کا مقام حاصل ہے اور نہ ہی اس کی ہمارے سامنے کوئی اہمیت ہے اور اس کے باوجود وہ ہماری حکومت کے خلاف باتیں کرتا ہے جو اس قدر مبہم ہیں کہ کسی کی سمجھ میں آنے والی نہیں اب موزانہ تم خود ہی کرلو کہ میرے جیسا کرلو کہ میرے جیسا صاحب عظمت وجبروت جو وسیع اختیارات کا مالک ہے اس کی فرمانبرداری کا حق ہے یا اس کی فرمانبرداری کا جس کی قوم ہماری غلام ہے اور ایک مدت سے غلام چلی آرہی ہے (ولا یکادیبین) اور اپنی بات کو کھول کر نہیں بیان کرسکتا۔ ان الفاظ کی تفسیر میں مفسرین نے وہ قصہ نقل کیا ہے جس سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں لکنت تھی اور ہم اس کی وضاحت سورة طٰہ کی آیت 27 ، 28 میں کرچکے ہیں۔ حالانکہ اس جگہ کوئی ایسی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آپ کے مطالبہ کو غیر اہم مطالبہ سمجھ کر ایسی بات کررہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے جو کچھ ہماری حکومت کررہی ہے ان کو کوئی اعتراض نہیں اگر ان کو کوئی اعتراض ہوتا تو قارون ہمارے پروگرام میں کیوں شامل ہوتا جب کہ اس کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے ہے اور آپ کے مطالبہ کو الجھا ہوا مطالبہ وہ اس لیے کہتا ہے کہ موسیٰ ایک طرف تو میری ربوبیت سے انکار کرتا ہے اور جس کے رب ہونے کا ہم کو پتہ بتاتا ہے اس کو ہمارے سامنے بھی نہیں لاتا اور پھر جب اس کا وہ مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو وہ کہتا ہے کہ بنی اسرائیل کو میرے حوالے کردو یہ بات موسیٰ کس ورطے پر کرتا ہے اس کے پاس ہے ہی کیا جہاں وہ بنی اسرائیل کو لے جائے گا کیا ہم اپنی قوم کے ایک اہم حصہ کو جو ہمارے کام آرہا ہے اور ہمارے زیر حکمرانی خوش وخرم زندگی گزار رہا ہے ایک سفید پوش کی معیت میں کردیں جوان کو بھوکوں ماردے یہ کس طرح ممکن ہے اور پھر یہ کہ میری ربوبیت سے انکار اور رب العالمین کی ربوبیت کے ضبط کا تعلق آخر اس کے دوسرے مطالبہ کے ساتھ کیا ہے ؟ کہاں رب العالمین کی ربوبیت کا اقرار اور کہاں بنی اسرائیل کا مصر سے لے جانے کا مطالبہ ؟ حالانکہ ان دونوں باتوں کا جو تعلق ہے وہ بہت گہرا ہے جس کو اس کا سطحی ذہن یا تو سمجھ نہیں سکا یا وہ دوسروں کو الجھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
Top