Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 10
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتیں اُولٰٓئِكَ : یہی اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : جہنم والے
اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں
والذین کفروا وکذبوا بایتنا اولئک اصحب الجحیم اور جن لوگوں نے (ماننے سے) انکار کیا اور تکذیب کی وہی دوزخی ہیں۔ یعنی کبھی دوزخ سے الگ نہ ہوں گے۔ کلام خداوندی کا اسلوب ہے کہ ایک فریق (اور اس کے عواقب) کا ذکر کرنے کے بعد دوسرے فریق (اور اس کے نتائج) کا ذکر کرتا ہے (آیات مذکورۂ بالا میں بھی یہی اسلوب پیش نظر رکھا گیا ہے) بغوی نے اپنے سلسلۂ سند سے مجاہد ‘ عکرمہ ‘ کلبی اور ابن بشار کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت منذر بن عمر ساعدی کو مہاجرین و انصار کی تیس آدمیوں کی جماعت کے ساتھ بنی عامر صعصعہ کی طرف (تبلیغ اسلام کے لئے) بھیجا یہ منذر وہی تھے جو گھاٹی والی رات میں (انصار کے) نمائندوں میں سے ایک نمائندہ تھے حسب الحکم یہ لوگ گئے اور بنی عامر کے ایک چشمہ پر جس کا نام بیر معونہ تھا بنی عامر بن طفیل سے مقابلہ ہوا (بنی عامر نے فریب کیا اور سب کو قتل کردینا چاہا) اور لڑائی ہو پڑی۔ نتیجہ میں حضرت منذر ؓ اور آپ کے ساتھی شہید ہوگئے صرف تین مسلمان بچے جو گم شدہ اونٹنی ڈھونڈنے گئے ہوئے تھے ان میں سے ایک عمرو بن امیہ ضمری تھے یہ بات دیکھ کر ان تینوں کو اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کچھ پرندے آسمان پر چکر کاٹ رہے ہیں اور ان کی چونچوں سے خون کے لوتھڑے زمین پر گر رہے ہیں یہ سماں دیکھ کر ایک صاحب بولے ہمارے ساتھی قتل کردیئے گئے۔ یہ کہہ کر اپنی جماعت کی طرف رخ کر کے دوڑتے ہوئے پلٹے پڑے راستہ میں ایک آدمی سے مقابلہ ہوا دونوں میں لڑائی ہونے لگی آخر ایک ضرب مسلمان کے کاری لگی تو انہوں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا آنکھیں کھولیں اور فرمایا اللہ اکبر ‘ رب العالمین کی قسم میں جنت میں داخل ہوگیا اور دوسرے دونوں ساتھی بھی لوٹ پڑے ان کا مقابلہ بنی سلیم کے دو آدمیوں سے ہوا (بنی سلیم بنی عامر کی ایک شاخ تھی) ان دونوں آدمیوں نے اپنا نسب بنی عامر سے ملایا تو دونوں مسلمانوں نے (ان کو کافر سمجھ کر) قتل کردیا ‘ مگر واقع میں بنی سلیم اور رسول اللہ ﷺ کا ایک معاہدہ صلح ہوچکا تھا ‘ جس کی وجہ سے بنی سلیم والے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں خون بہا مانگنے حاضر ہوئے (خون بہا ادا کرنے کو پیسہ نہ تھا اس لئے) رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ ‘ حضرت عمر ؓ ‘ حضرت عثمان ؓ ‘ حضرت علی ؓ ‘ حضرت طلحہ ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کو ساتھ لے کر کعب بن اشرف (یہودی) اور بنی نضیر کے پاس تشریف لے گئے تاکہ دیت ادا کرنے میں ان سے مالی امداد لیں کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے معاہدہ کیا تھا کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں لڑائی نہ ہوگی اور (اگر مسلمانوں کو ضرورت ہوئی تو) خون بہا ادا کرنے میں مسلمانوں کی مدد کریں گے رسول اللہ ﷺ : کا مطلب سمجھ کر یہودیوں نے کہا ‘ ہاں ابوالقاسم اب وقت آیا ہے کہ تم ہم سے آکر اپنی ضرورت مانگو۔ بیٹھو۔ اوّل ہم تم کو کھانا کھلائیں گے پھر جو کچھ مانگتے ہو وہ دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے۔ یہودیوں نے باہم مشورہ کیا اور کہا محمد ﷺ جس قدر آج تمہارے قریب آگئے ہیں آئندہ اتنے قریب کبھی نہیں آئیں گے ‘ اس وقت اگر کوئی ہوتا کہ اس مکان کی چھت پر چڑھ کر اوپر سے محمد پر ایک بڑا پتھر گرا دیتا تو (ہمیشہ کے لئے) ہم کو سکھ مل جاتا۔ عمرو بن حجاش نے کہا ایسا میں کروں گا چناچہ وہ ایک بڑی چکی کے پاٹ نیچے گرا دینے کے ارادہ سے گیا۔ مگر اللہ نے یہودیوں کے ہاتھ باندھ دئیے اور جبرئیل ( علیہ السلام) نے آکر رسول اللہ ﷺ کو خبر دے دی اور حضور ﷺ والا مدینہ کو لوٹنے کے ارادہ سے باہر آگئے۔ پھر حضرت علی ؓ کو بلا کر فرمایا تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اگر میرے رفقاء میں سے کوئی شخص تمہارے پاس آکر مجھے دریافت کرے تو کہہ دینا کہ وہ مدینہ کو گئے ہیں حضرت علی ؓ نے حکم کی تعمیل کی۔ یہاں تک کہ ایک ایک کر کے سب ساتھی نکل آئے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پیچھے آگئے۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top