Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 42
مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِؕ
مَا : نہ تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ : چھوڑتی تھی کسی چیز کو اَتَتْ عَلَيْهِ : آئی جس پر اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ : مگر اس نے کردیا اس کو بوسیدہ ہڈیوں کی طرح
وہ (آندھی اتنی زبردست تھی کہ) جس چیز پر گزرتی اس کو ریزہ ریزہ کیے بغیر نہ چھوڑتی
وہ آندھی جس پر بھی گزری اس نے ہر ایک چیز کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا 42 ؎ ان کا انجام بھی بڑا ہی عبرت ناک ہوا ان کی سرکشی جب حد سے تجاوز کرگئی تو ان کو راہ راست پر لانے کی ساری تدبیریں ان پر آزما لی گئی تھیں اور ہود (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ صلاحیتوں کو انہوں نے نہایت سختی سے دبانے کی کوشش کی یہاں تک کہ انہوں نے برملا ہود (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم اس ڈھونگ میں آنے والے نہیں کہ تجھ کو اللہ کا رسول مان لیں اور اپنے معبودوں کی عبادت چھوڑ کر یہ یقین کرلیں کہ وہ رب کریم کے سامنے ہمارے سفارشی نہیں ہوں گے۔ ہود (علیہ السلام) نے بھی ان سے کہا کہ نہ تو میں بیوقوف ہوں اور نہ پاگل بلکہ بلاشبہ اللہ کا رسول اور نبی ہوں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے کسی بیوقوف کو منتخب نہیں کیا کرتا کہ اس کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ جائے اور ہدایت کی جگہ گمراہی آجائے وہ اس عظیم الشان خدمت کے لئے اپنے بندوں سے ایسے شخص کو چنتا ہے جو ہر طرح اس کا اہل ہو اور اس خدمت حق کو بخوبی انجام دے سکے مگر قوم کی سرکشی اور مخالفت بڑھتی ہی گئی اور ان پر آفتاب سے زیادہ روشن دلائل و نصائح کا مطلق اثر نہ ہوا اور وہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی تکذیب و تذلیل کے اور زیادہ درپے ہوگئے اور اس کو مجنون اور خبطی کہہ کر اور زیادہ مذاق اڑانے لگے اور کہنے لگے اے ہود ! جب سے تو نے ہمارے معبودوں کو برا کہنا اور ہم کو ان کی عبادت سے باز رہنے کی تلقین کرنا شروع کیا ہے ہم دیکھتے ہیں اس وقت سے تیرا حال خراب ہوگیا ہے اور ہمارے معبودوں کی بد دعا سے تو پاگل و مجنون ہوگیا ہے تو اب ہم اس کے علاوہ تجھ کو اور کیا سمجھیں ؟ اس طرح اس بدبخت اور بدنصیب قوم پر جب ہود (علیہ السلام) کی نصیحتوں کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ ان کا بغض وعناد اور دوبالا ہوگیا تب ہولناک عذاب نے ان کو آگھیرا۔ آٹھ دن اور سات راتیں پیہم تیز و تند ہوا کے طوفان اٹھے اور ان کو اور ان کی آبادی کو تہ وبالا کر کے رکھ دیا۔ تنومند اور قومی ہیکل انسان جو اپنی جسمانی قوتوں کے گھمنڈ میں سرمست سرکش تھے اس طرح بےحس و حرکت پڑے نظر آتے تھے جس طرح آندھی سے تناور درخت بےجان ہو کر گر جاتے ہیں۔ غرض ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے درس عبرت بنیں اور اس طرح دنیا و آخرت کی لعنت اور عذاب ان پر مسلط کردیا گیا کہ وہ اسی کے مستحق تھے۔
Top