Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 29
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى١ۙ۬ عَنْ ذِكْرِنَا وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ
فَاَعْرِضْ : تو اعراض برتیئے عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى : اس سے جو منہ موڑے عَنْ ذِكْرِنَا : ہمارے ذکر سے وَلَمْ يُرِدْ : اور نہ چاہے وہ اِلَّا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : مگر دنیا کی زندگی
پس (اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ اس کی طرف توجہ نہ کیجئے جو ہماری یاد سے روگردانی کرے اور سوائے دنیا کی زندگی کے کچھ نہ چاہے
جو لوگ محض دنیادار ہیں اور آخرت سے بےنیاز ہیں یہی وہ غافل ہیں جو خسارہ میں ہیں 29 ؎ نبی اعظم و اخر ﷺ کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اے رسول ! ﷺ جو شخص ہماری یاد یعنی قرآن کریم سے اعراض کرتا ہے آپ ﷺ اس کی طرف سے منہ پھیر لیں یعنی اس کے پیچھے نہ پڑیں اور اس کے اعراض کرنے کی پروا نہ کریں اور اپنی جان کو اس غم میں ہلکان نہ کریں کہ وہ ایمان کیوں نہیں لاتا۔ جو شخص ایمان نہیں لاتا اور ہماری ہدایت سے روگردانی کرتا ہے وہ سراسر اپنا نقصان کر رہا ہے اور اگر وہ حق کے مقابلہ میں باطل کی پیروی کرنا چاہتا ہے تو ایسا کر کے اس کا نتیجہ دیکھ لے کہ کیا نکلتا ہے۔ (عن ذ کرنا میں (ذکر) سے مراد قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم کو ذکر سے جہاں بھی یاد کیا جاتا ہے اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے اور وہ یہاں بھی موجود ہے۔ قرآن کریم لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتا ہے اور اس کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کرتا ہے غیر اللہ کی پرستش سے روک کر ایک اللہ کی پرستش کا حکم دیتا ہے۔ وہمی مفروضوں اور ظن و گمان سے کام لینے کی بجائے اپنی آخروی زندگی کو سنوارنے کے لئے سنہری اصول بناتا ہے۔ دوسروں کے سہاروں اور آسروں سے نکال کر انسان کو اچھے اعمال کی ہدایت دیتا ہے اور ہر عمل کے ساتھ اس کے نتیجہ کو وابستہ ہونا ضروری قرار دیتا ہے وہ بتاتا ہے کہ اچھا عمل کیا ہے اور برا عمل کیا اور پھر یہ بھی کہ ہر اچھے عمل کا نتیجہ اچھا ہے اور ہر برے عمل کا نتیجہ برا ہوتا ہے۔ زیر نظر آیت میں اس نے یہ اصول واضح فرما دیا ہے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم سے اعراض کرتا ہے اس کا مقصد کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ وہ محض دنیا کی زندگی کو زندگی مانتا اور تصور کرتا ہے اور آخرت کی زندگی سے وہ عملاً انکاری ہے خواہ زبان سے اس کا اقرار ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ ہرچیز کی ایک پہچان ہے جس سے وہ پہچانی جاتی ہے ۔ آخرت پر یقین رکھنے والوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی برا عمل نہیں کرتے اور نیکیوں کی طرف دوڑنا ان کا کام ہوتا ہے اور دنیا کے مال و متاع کی ان کی نظروں میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی وہ دنیا میں رہ کر صرف زندگی گزارتے ہیں اور اپنے آپ کو محض ایک مسافر خیال کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کے اس سفر میں کوئی اچھی یاد چھوڑ جائیں جو آنے والوں کے لئے نشان منزل ہو۔ لیکن ان کے مقابلہ میں دنیا کا طالب جو کچھ کرتا ہے اس کا مطمع نظر صرف دنیا ہوتا ہے اور وہ آخرت سے اس لئے بھی بےنیاز ہوتا ہے کہ آخرت کا تصور اس کے خیال کے مطابق محض ایک ڈھکوسلا ہے جس کی کوئی حقیقت اس کی نگاہ میں نہیں ہے اس لئے وہ رات دن دولت سمے ٹن اور اس کو گن گن کر رکھنے میں مصروف رہتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اس طرح کے لوگ ہرگز ہرگز مستحق نہیں کہ آپ ان کے لئے متفکر رہیں۔ آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اگر یہ قصر مذلت میں چھلانگ لگانا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا جی ڈوبنے کے لئے بےقرار ہے اور پھر جب ایسی بات ہے تو ان کو وب کر بھی آپ ﷺ دیکھ لینے دیں۔
Top