Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 18
اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ : بیشک صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُصَّدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ : اور انہوں نے قرض دیا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعَفُ : دوگنا کیا جائے گا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَجْرٌ كَرِيْمٌ : اجر ہے عزت والا
بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ جو اللہ کو نیک قرض دیتے ہیں ان کو دوگنا (اَجر) دیا جائے گا اور ان کے لیے بڑا ہی باعزت اجر ہے
بلا شبہ سچے لوگوں نے اللہ کو قرض دیا ، وہ اس کو دوگنا کر دے گا 18 ؎ اس سے پہلے آیت گیارہ میں یہ مضمون گزر چکا ہے اور اسی کو دوبارہ دہرایا جا رہا ہے تاکہ ان لوگوں کو باور کرایا جائے کہ اگر ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں جس خرچ کرنے سے مال یہی نہیں کہ ایک طرح سے خرچ ہوجاتا ہے بلکہ مال میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی دیا ہوا مال تو شہ آخرت بن جائے گا یہ خرچ کرنا گویا محض خرچ کرنا نہیں ہے بلکہ مال کو نفع پر لگانا ہے جس سے مال کے بڑھنے کی امید ہوتی ہے کم ہونے کی امید پر کوئی خرچ نہیں کرتا اور پھر ظاہر ہے کہ جو لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں اللہ کی راہ میں اسی نظریہ کے مطابق مال خرچ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں وہ وہی ہوتے ہیں جنہوں نے اس پیغام کی تصدیق کی ہے اور اس کو جھٹلایا نہیں ہے اور جو لوگ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ظاہر ہے کہ وہ اس حقیقت پر ایمان نہیں رکھتے نہ تو وہ قیامت کے تصور کو مانتے ہیں اور نہ دوبارہ اٹھائے جانے کو اور نہ ہی اس پیغام کو سچا سمجھتے ہیں جس میں مال خرچ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے وہ مال کے جمع کرنے کے شیدائی ہوتے ہیں اور اسی دھن میں وہ ساری زندگی لگے رہتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ یہی کہ ایک دن آجاتا ہے کہ مال کو وہ چھوڑ کر خود رخصت ہوجاتے ہیں اور واپس آ کر پھر وہ کبھی نہیں دیکھتے کہ ان کا اس طرح سے جمع کیا ہوا مال اڑانے والوں نے کس طرح اڑادیا ؟ مختصر یہ ہے کہ دعویٰ ایمان میں سچے لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے قطعا ً گریز نہیں کرتے بلکہ وہ ان کو جب کوئی ایسا موقع ہاتھ آجاتا ہے تو محض اس نظریہ پر بےدھڑک خرچ کردیتے ہیں اور جو ایسا کرتے ہیں انکے لیے دو گنا سہ گنا بلکہ دس گنا اجر ملے گا اور اللہ جس کے لیے چاہے گا اس سے بھی کئی گنا زیادہ دیدے گا اور بلا شبہ ان کو دیا جانے والا اجر ان کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے مردوں کے ساتھ عورتوں کا ذکر بھی خاص کر کے کیا گیا ہے جس سے اس بات کی خود بخود وضاحت ہوجاتی ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی اپنی ملکیت رکھتی ہیں اور ان کو بھی حق ہے کہ وہ اپنے مالوں کو اس طرح کے عمل میں لائیں کہ ان کا مال بڑھے اور وہ اپنی مرضی کے ساتھ رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرسکیں اور ان کی ملکیت کو تسلیم نہ کرنا اور مال کو فقط مردوں ہی کے ہاتھوں میں رکھنا ، ترکہ کی تقسیم میں بیھ ان کو مردوں کے ساتھ شرعی حصہ میں شریک نہ کرنا ایک بہت بڑا ظلم ہے اور یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرہ نے اس ظلم کو بہت سارے دوسرے ظلموں کی طرح جائز اور روا سمجھ لیا ہے جس کی اسلام میں مکمل طور پر نفی کی گئی ہے۔
Top