Urwatul-Wusqaa - Al-Hashr : 2
هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ١ؔؕ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا١ۗ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ١ۗ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ
هُوَ : وہی ہے الَّذِيْٓ : جس نے اَخْرَجَ : نکالا الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا مِنْ : سے، کے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ دِيَارِهِمْ : ان کے گھروں سے لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڼ : پہلے اجتماع (لشکر) پر مَا ظَنَنْتُمْ : تمہیں گمان نہ تھا اَنْ يَّخْرُجُوْا : کہ وہ نکلیں گے وَظَنُّوْٓا : اور وہ خیال کرتے تھے اَنَّهُمْ : کہ وہ مَّانِعَتُهُمْ : انہیں بچالیں گے حُصُوْنُهُمْ : ان کے قلعے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے فَاَتٰىهُمُ : تو ان پر آیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ : انہیں گمان نہ تھا وَقَذَفَ : اور اس نے ڈالا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : ان کے دلوں میں الرُّعْبَ : رعب يُخْرِبُوْنَ : وہ برباد کرنے لگے بُيُوْتَهُمْ : اپنے گھر بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے وَاَيْدِي : اور ہاتھوں الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ : مومنوں فَاعْتَبِرُوْا : تو تم عبرت پکڑو يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ : اے نگاہ والو
(اللہ رب ذوالجلال والاکرام) وہی ہے جس نے ان لوگوں کو جو اہل کتاب میں سے کافر ہیں ان کے گھروں سے پہلی ہی بار جمع کر کے نکال دیا ، تم کو گمان بھی نہ تھا کہ وہ (مدینہ سے) نکل جائیں گے اور انہیں بھی غلط فہمی تھی کہ ان کے قلعے ان کو اللہ (کے قہر) سے بچا لیں گے پھر (اللہ نے) ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا (اور وہ اپنی شرارتوں کے باعث نکلنے کے لیے تیار ہوگئے اور نکلتے وقت) وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے ، پس اے اہل عقل و دانش ! عبرت حاصل کرو
اہل کتاب کے کافروں کو مدینہ سے نکال کر باہر کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے 2 ؎ زیر نظر آیت میں جن اہل کتاب کے کافروں کا ذکر کرنا مقصود ہے وہ مدینہ اور اس کے مضافات میں رہنے والے یہود کے ایک بہت بڑے قبیلہ بنو نضیر کا ہے لیکن اس سے پہلے کہ ان کے یہاں سے نکلنے کی وجہ ہم عرض کریں اہل کتاب اور مدینہ کے جوڑ کے متعلق عرض کرنا ضروری خیال سمجھا گیا ہے تاکہ حقیقت کے سمجھنے میں آسانی ہو اور مسلمانوں کے ساتھ بد گمانی کرتے ہوئے بعض لوگ یہ نہ سمجھنے لگیں کہ جس طرح اہل مکہ نے ان مہاجروں کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا بالکل اسی طرح اہل مدینہ کے مسلمانوں نے قدرے طاقت حاصل کر کے مدینہ کے یہودیوں کو ہجرت پر مجبور کردیا اور اس طرح اگر مکہ والوں کا نکالنا ظلم و زیادتی ہے تو مدینہ سے جن لوگوں نے اہل کتاب کو نکالا بعینہٖ وہی حکم و زیادتی انہوں نے اہل کتاب پر شروع کردی حالانکہ اس کی حقیقت یہ نہیں ہے اور جب تک حقیقت معلوم نہ ہو اس سوال کا جواب مبہم رہے گا اور ابہام ہے جو غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں وہ اس جگہ بھی پیدا ہوں گی۔ یہود یثرث میں کیسے آباد ہوئے اور مدینہ کو یثرب کیوں کہتے ہیں ؟ یہود کا اصل وطن کیا تھا ؟ سب کو معلوم ہے کہ ان کا اصل وطن فسطین تھا۔ وہ حجاز کب اور کیونکر آئے اور آباد ہوئے اس سوال کے جواب میں جو کچھ تاریخ شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے اس میں مندرجہ ذیل تین وجوہ بیان کیے جاسکتے ہیں جن کے باعث یہود اس جگہ آ کر آباد ہوئے : (1) علامہ ابن خلدون نے اپنی کتاب تاریخ ابن خلدون میں لکھا ہے اور دیگرعربی مراجع سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ یثرب شہر کو آباد کرنے والے عمالقہ تھے۔ جس شخص نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اس کا نام یثرب بن صلایل بن عوص بن عملیق تھا۔ گویا یہ شہر اپنے بسانے والے کے نام سے ہی مشہور ہوگیا ۔ عمالہ کا کام فتنہ و فساد برپا کرنا ، راہزنی ، قزاقی اور بد معاشی تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع کی قیادت میں بنی اسرائیل کا ایک لشکر عمالقہ کی بیخ کنی کے لیے یثرب روانہ کیا اور اسے حکم دیا کہ ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑیں ۔ یوشع نے اپنی اسرائیلی فوج کے ساتھ یثرب پر حملہ کیا ، ان کو شکست فاش دی اور اس نسل کے جتنے آدمی تھے سب کو تہ تیغ کردیا ۔ صرف ان کے بادشاہ سمیدع بن ہومر کا ایک نوجوان لڑکا جو حد درجہ خوبصور تھا اسے انہوں نے زندہ رہنے دیا تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خود اس کے بارے میں فیصلہ کریں ۔ جب یہ فاتح لشکر ، اپنے وطن کی طرف لوٹا تو اس کے پہنچنے سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رحلت فرما گئے ، وہاں کے یہودیوں کو جب پتہ چلا کہ یوشع نے عمالقہ کے بادشاہ کے لڑکے کو قتل نہیں کیا تو وہ سخت برہم ہوگئے اور ان پر موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کی نافرمانی کا الزام لگایا اور انہیں اپنے علاقہ میں سکونت کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔ ان لوگوں نے یہ سوچا کہ بجائے اس کے کہ ہم ادھر ادھر مارے پھریں کیوں نہ اس شہر میں جا کر آباد ہوجائیں جس کو انہوں نے ابھی ابھی فتح کیا ہے ، چناچہ وہ یثرب واپس آگئے اور وہیں رہائش اختیار کرلی ، یہ پہلا یہودی گروہ ہے جو یہاں آ کر آباد ہوا۔ (2) بخت نصر نے جب یروشلم پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ ہیکل سلماگنی مکو گرا کر پیوند زمین کردیا ۔ بہت سے یہودیوں کو بےدریغ قتل کردیا اور بیشمار لوگوں کو جنگی قیدی بنا کر اپنے ہمراہ لے گیا ۔ اس وقت یہودیوں کے چند قبائل یثرب میں آ کر آباد ہوگئے۔ یاد رہے کہ بخت نصر نے 587؁ قبل مسیح کو یروشلم پر حملہ کیا تھا۔ علامہ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں : من ذالک الزمان ( زمان بخت نصر) تفرقت بنو اسرائیل فی البلاد فنزلت طائفۃ منھم الحجاز و طائفۃ یثرب و طائفۃ وادی القریٰ وذھب شرذمۃ الی مصر ( البدایہ والنہایہ ص 39 ج 2) ترجمہ :۔ یعنی بخت نصر کے حملہ کے زمانہ میں بنو اسرائیل مختلف ملکوں میں تتر بتر ہوگئے۔ ان میں سے ایک طائفہ جاز میں ، ایک یثرت میں ، ایک وادی القریٰ میں جا کر اقامت گزیں ہوگیا اور ایک چھوٹا سا گروہ مصر چلا گیا ۔ (3) جب رومیوں نے شام ، فلسطین اور نواحی علاقوں پر قبضہ کیا اور یہودی آبادیوں کو ویرانوں میں بدل دیا ۔ ان کے مردوں کو قتل کر کے ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح کرلیا ۔ اس بھگدڑ میں بنو نضیر ، بنو قریظہ اور بنی بھدل وہاں سے جان بچا کر بھاگ آئے اور یثرب میں اقامت اختیار کرلی ۔ ابن خلدون لکھتے ہیں : وظھر الروم علی بنی اسرائیل بالشام قتلوھم وسبواو خرج بنو نضیر و بنو قریظہ و بنو بھدل ھاربین الی الحجاز و تبعھم الروم فھلکو عطشا ً ۔ (تاریخ ابن خلدون ج دوم ص 595) ترجمہ : ” جب رومی بنی اسرائیل پر ملک شام میں غالب آگئے تو انہوں نے انہیں قتل کیا ۔ انہیں گرفتار کیا ۔ ان حالات میں بنو نضیر ، بنو قریظہ اور بنی بھدل حجاز کی طرف بھاگ آئے ۔ رومیوں نے ان کا تعاقب کیا لیکن عرب کی صحرا کی دھوپ برداشت نہ کرسکے اور پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگئے “۔ ڈاکٹر احمد امین نے فجر الاسلام میں اسی قول کی تائید کی ہے۔ ( ص 23 ، 24) یہ تین اقوال کتب تاریخ میں پائے جاتے ہیں ، ان میں سے کسی کو صحیح اور کسی کو غلط کہنا بلاوجہ تکلف ہے کیونکہ ان تنوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہو سکتا کہ سب سے پہلے یوشع اور ان کے ساتھی یثرب میں آ کر آباد ہوئے ہوں ۔ پھر جب 87؁ھ ق م میں بخت نصر نے یروشلم آ کر تباہ و برباد کردیا تو اس وقت یہودیوں کے چند قبائل بھاگ نکلے اور حجاز کے مختلف خطوں میں آ کر آباد ہوگئے۔ تیما ، فدک ، خیبر ، وادی القریٰ کے سر سبز علاقے انہوں نے اپنی رہائش کے لیے منتخب کرلیے ہوں ۔ پھر جب رومیوں نے آ کر شام و فلسطین پر قبضہ کرلیا اور یہودیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں تو اس وقت یہ تین قبیلے کسی طرح جان بچا کر حجاز کی طرف بھاگ آگئے ہوں اور یثرب میں جہاں پہلے سے ان کے دینی بھائی رہائش پذیر تھے وہاں پہنچ گئے ہوں۔ جب قومیں ہجرت کرتی ہیں تو اس کے تمام افراد یکبارگی نقل مکانی نہیں کیا کرتے۔ کسی حادثہ کے وقت ان میں سے بعض ترک وطن میں پیش قدمی کرتے ہیں ۔ جب کوئی اور افتاد پڑتی ہے تو بعض دوسرے کسی پناہ گاہ کی تلاش میں اپنے وطن کو خیر باد کہتے ہیں ۔ پھر کسی نئی قیامت کے برپا ہونے پر باقی ماندہ لوگ بھی کوچ کر جاتے ہیں۔ یہی یہودیوں کی ہجرت کا ہے جو مختلف مقامات اور مختلف حالات میں وقوع پذیر ہوئی۔ اوس و خروج جن کو بعد میں انصار اسلام بننے کا شرف حاصل ہو اور اسی لقب سے مشہور عالم ہوئے۔ ان کا اصلوطن یمن تھا اور ان کا تعلق یمن کے ایک مشہور قبیلہ بنی ازد سے تھا جو یمن کے خوشحال ملک میں عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہا تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کے انعامات کی نا شکری کی پاداش میں وہ تباہ کن سیلاب آیا جس نے سد مآرب کے پرخچے اڑا دیئے تو سارایمن تباہ و برباد ہوگیا ۔ جو لوگ اس طوفان کی زد میں آگئے وہ لقمہ اجل بن گئے لیکن جو لوگ بچ گئے ان کے باغات ، ان کی زرعی زمینیں ، ان کے قصور و محلات سب تباہ وبرباد ہوگئے۔ انہوں نے بیٓ اسی میں سلامتی سمجھی کہ یہاں سے نقل مکانی کر کے کسی ایسے گوشہ میں رہائش اختیار کریں جہاں وہ امن و سکون کی زندگ بسر کرسکیں ۔ انہی میں سے ازاد کا قبیلہ بھی تھا۔ ابن خلدون لکھتے ہیں : نزلت ازد شنئوۃ الشام بالسراۃ خزاعۃ بطوٰی ونزلت غشان بصری وارض الشام و نزلت ازدعمان الطائف و نزلت الاوس والمخررج یثرب ( 596 ج 2) ترجمہ : ” یعنی سیل العرم کے بعد ازد یمن سے نکلے ، ان کا ایک حصہ ازشنئوہ شام میں سراۃ میں جاکرآباد ہوا ۔ خزاعہ طویٰ میں ، غسان بصریٰ میں اور سر زمین شام میں اور ازعمان ، طائف میں ، اوس اور خزرع یثرب میں جا کر اقامت گزین ہوئے۔ “ اوس و خزرج نے یثرب کی نوحی آبادیوں اور ارد گرد کے گائوں میں سکونت اختیار کی لیکن ازدنے کب ہجرت کی اور وہ تباہ کن سیلاب کب آیا جس نے اس سنگین چٹانوں سے بنے ہوئے بند کو درہم برہم کردیا ؟ اس کے بارے میں کتب تاریخ میں متعدد اقوال مذکر ہیں (1) سد مآرب میں پہلا زبردست شگاف ولادت ِ مسیح (علیہ السلام) کے قریبی زمانہ میں ہوا ۔ اگرچہ سارا ڈیم برباد نہیں ہوا تھا لیکن یہ شگاف اتنا ہولناک تھا کہ اب اس بند کی پختگی پر مزید بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے لوگوں نے وہاں سے ترک وطن کا سلسلہ شروع کردیا ۔ جرجی زیدان ” العرب قبل الاسلام “ میں لکھتے ہیں : و تفرقت قبائل الازد وغیرھا فی جزیرۃ العرب بسبب ذلک بان ذلک وقع حوالی تاریخ المیلاد ۔ یعنی سب سے پہلے شگاف مسیح (علیہ السلام) کے قریبی زمانہ میں ہوا جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور انہوں نے نقل مکانی کر کے محفوظ مقامات پر آباد ہونا شروع کردیا ۔ اس قول کے مطابق اوس و خروج پہلی صدی عیسوی میں یثرب میں جا کر آباد ہوئے۔ (2) ڈاکٹر احمد امین ” فجر الاسلام “ میں 300؁ء میں اوس و خروج کی آمد یثرب میں ثابت کرتے ہیں ۔ (3) بعض کا خیال ہے کہ سلاب عظیم جس نے بند کو ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد کردیا وہ 450؁ عیسوی یا 451؁ عیسوی میں آیا۔ اس تیسرے قول کے مطابق یثرب میں اوس و خررج کی آمد پانچویں صدی کے نصب آخر میں ہوگی۔ یہ تو ممکن ہے کہ سیلاب عظیم 450؁ء میں آیا ہو لیکن اس سے پہلے قولوں کی تردید نہیں ہو سکتی ۔ ممکن ہے کہ ابتداء میں کوئی شگاف پڑے ہوں اور اس ڈیم میں ذخیرہ شدہ پانی بہہ گیا ہو لیکن اس سے ڈیم کلیتاً تباہ نہ ہوا ہو اور سیلاب کے اختتام پر حکومت وقت نے اس کی مرمت کردی ہو اور اس طرح ڈیم کسی نہ کسی طرح باقی رہا ہو۔ اوس و خزرج اپنے اہل و عیال کے ساتھ جب یثرب پہنچے تو وہاں یہودی صدیوں سے آباد تھے۔ بازار اور منڈیاں ان کے قبضہ میں تھیں۔ زرعی زمینوں اور باغات کے وہ مالک تھے۔ سیاسی لحاظ سے بھی ان کا کوئی مد مقابل نہ تھا۔ جو عرب قبائل وہاں آباد تھے ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہ تھی ، وہ یہودیوں کے زیر فرمان اپنی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اوس و خزرج یثرب کی نواحی بستیوں یا ارد گرد کے گائوں میں سکونت پذیر رہے۔ ابتداء میں انہوں نے یہود کی پناہ لی اور ان کی بالا دستی کو تسلیم کرلیا۔ کچھ عرصہ تک حالات ایسے ہی رہے۔ اس اثناء میں اوس و خزرج کی تعداد بڑھتی گئی یہاں تک کہ ان کی جمعیت میں کافی اضافہ ہوگیا ۔ یہاں تک کہ ان میں ایک مرد میدان مالک بن عجلان پیدا ہوا ۔ جب اس نے اپنے قبیلہ کی قیادت سنبھالی تو اس نے یہود کے تغلب سے اپنے قبیلہ کو رہائی دلانے کے لیے سوچنا شروع کردیا ۔ اس وقت ان کا ایک بھائی بند ابو جبیلہ شام میں غسان کے علاقہ کا فرمانروا تھا۔ اس کا قبیلہ بھی سیل عرم کے باعث یمن سے ترک سکونت کر کے شام میں جا کر آباد ہوگیا تھا ، مالک اس کی خدمت میں پہنچا ، اپنی اور اپنی قوم کی خستہ حالی اور غربت و افلاس کو شکوہ کیا ۔ نیز یہودیوں کی بالا دستی سے بھی اسے مطیع کیا ۔ ابی جبیلہ نے کہا کہ جس طرح ہم نے اہل غسان پر غلبہ حاصل کرلیا ہے ، تم نے یثرب کے یہودیوں کو اپنا زیر نگین کیوں نہیں بنایا ؟ اس نے مالک سے وعدہ کیا کہ میں لشکر لے کر تمہاری امداد کے لیے آئوں گا تم تیار رہنا ۔ مالک ، ابو جبیلہ سے پختہ وعدہ لبینے کے بعد واپس یثرث آیا اور اپنی قوم کو حقیقت حال سے خبردار کیا ۔ انہیں کہا کہ وہ ہر وقت چست رہیں ۔ کچھ عرصہ بعد ابو جبیلہ ایک لشکر جرار لے کر اپنے بھائیوں کی امداد کے لیے یثرب کی طرف روانہ ہوا ۔ ” ذی حرض “ کے مقام پر پہنچ کر اس نے قیام کیا اور اوس و خزرج کو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لیے قاصد روانہ کیا ۔ اسے یہ اندیشہ تھا کہ یہودی اس کی آمد کے بارے میں سن کر اپنی گڑھیوں میں قلعہ بند نہ ہوجائیں ، اس نے یہودیوں کو خصوصی دعوت بھیج کہ وہ آ کر اس سے شرف ملاقات حاصل کریں ۔ چناچہ یہودی اپنے نوکروں ، خادموں سمیت وہاں پہنچے۔ جب وہ اسکی حویل میں داخل ہوئے تو اس نے اپنے لشکریوں کو کہا کہ ان سب کو تہ تیغ کر دو ، کوئی بھی بچنے نہ پائے۔ پھر اس نے اوس و خزرج کے نوجوانوں کو کہا کہ اگر اب بھی تم نے اس علاقہ پر قبضہ نہ کیا تو میں تم تمام کو نذر آتش کر دوں گا یہ کہہ کر خود شام کی طرف لوٹ آیا ۔ اس طرح یہودیوں کا غلبہ ختم ہوا اور اوس و خزرج کو سیاسی برتری حاصل ہوگئی اور ان کی قوت و شوکت کے سامنے یہود کو سرجھکانا پڑا۔ (تاریخ ابن خلدون ص 597 ، ج 2) اس وقت یہودیوں کے تین مشہور قبیلے وہاں آباد تھے۔ بنو قنیقاع ، بنی نضیر اور بنو قریظہ ۔ بنو قنیقاع زرگری ، آہنگری اور برتن سازی کا کام کیا کرتے تھے ۔ انہیں بنی خزرج کی پناہ حاصل تھی ، نیز ان کی دوسرے یہودیوں قبیلوں بنی نضیر اور بنو قریظہ سے سخت ان بن تھی ۔ اس لیے وہ یثرب کے شہر میں رہتے تھے اور کوئی ان سے مزاحمت نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس قتل عام کے بعد بنی نضیر اور بنی قریظہ نے سلامتی اسی میں سمجھی کہ وہ یثرب شہر کے اندر رہنے کے بجائے باہر اپنی بستیاں قائم کریں تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکیں ۔ بیشک اب اقتدار اور سیاسی قوت کے مالک اوس خزرج تھے لیکن یہود کا اثر نفوذ بھی کچھ کم نہ تھا۔ وہ سودی کاروبار میں بڑے چست و چالاک تھے۔ لوگوں کو قرض دیتے اور بھاری شرح پر سود وصول کرتے اور سود در سود کا چکر تو ایسا تھا کہ جو شخص ایک مرتبہ اس چکر میں پھنس جاتا ، عمر بھر نکلنے کی صورت پیدا نہ ہوتی ۔ کاروبار ، منڈیاں اور بازار سب یہودیوں کے تصرف میں تھے اس لیے مالی لحاظ سے ان کا گہرا اثر تھا۔ کچھ عرصہ تک اوس اور خزرج کے قبائل میں اتحادو اتفاق رہا ۔ اس کی برکت سے وہ خوشحال کی ایک زندگی بسر کرتے رہے لیکن آخر کار ان میں باہمی رنجشیں اور حسد و بغض کے آثار رونما ہونے لگے ۔ یہودی تو ان لمحات کے لیے ترس رہے تھے ۔ لیکن آخر کار ان باہمی رنجشیں اور حسد و بغض کے آثار رونما ہونے لگے ۔ یہودی تو ان لمحات کے لیے ترس رہے تھے ۔ فوراً انہوں نے دو برادر قبائل کے درمیان افتراق و انتشار کی خلیج کو وسیع تر کرنے کی سازشیں شروع کردیں ۔ ان کے مالی مفادات کا تقاضا تو یہی تھا کہ وہ پر امن زندگی بسر کریں ، کسی لڑائی اور فساد میں حصہ نہ لیں ۔ لیکن ان دو قبیلوں کے اتحاد میں انہیں اپنی موت نظر آتی تھی ۔ وہ ان کو آپس میں لڑانا ضروری سمجھتے تھے اور اس کے لیے وہ مالی بحران کا خندہ پیشانی سے استقبال کرنے کے لیے تیار تھے۔ چناچہ جب اوس و خزرج میں جنگ ہوئی تو ہر یہودی قبیلہ اپنے حلیف کے ساتھ مل کر اپنے یہودی بھائیوں کے ساتھ لڑنے سے باز نہ آتا ۔ یہ حالات تھے جب اسلام کی کرنیں آہستہ آہستہ یثرب کی تاریک فضا کو منور کرنے لگیں ۔ کچھ عرصہ بعد نبی اعظم و آخر ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے یثرب میں تشریف لے آئے۔ یہودی اپنی مذہبی کتابوں کے مطالعہ کے باعث اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک نبی آخر الزماں تشریف لانے والا ہے۔ اس کی آمد سے ان کے مصائب کی شب تار بھی صبح آشنا ہوگی ۔ جب تیع نے یثرب کی بستی کو برباد کرنے کا عزم کیا تو وہ یہودی علماء ہی تھے جنہوں نے اسے یہ کہہ کر اس اقدام سے روکا کہ تم اس بستی پر کبھی غلبہ نہیں پا سکتے۔ اس نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ یہ نبی الزمان کی ہجرت گاہ ہے۔ اس پر کوئی جابر غالب نہیں آسکتا ۔ انہیں کے بتانے پر تبع کرنے اسلام قبول کیا تھا جس کی تفصیل آپ عروۃ الوثقیٰ جلد ہشتم سورة الدخان آیت 37 کے حواشی میں ملاحظہ فرما چکے ہیں و۔ نیز جس وقت انہیں کسی کافر حملہ آور سے نبرد آزما ہونا پڑتا تو وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس آخری کتاب کا نام لے کر فتح کی دعا مانگا کرتے۔ (البقرہ : 89) اس لیے حضور ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضور ﷺ کے استقبال کرنے والوں میں یہ بھی پیش پیش تھے۔ نبی اعظم آخر ﷺ نے مدینہ طیبہ پہنچ کر وہاں امن وامان کی فضا برقرار رکھنے کے لیے معاہدات کا سلسلہ شروع کیا ۔ سب سے پہلے انصار اور مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تاکہ برائے نام قسم کی اجنبیت کا احساس بھی باقی نہ رہے۔ تمام مسلمان محبت و الفت کے رنگ میں رنگے جائیں ۔ مدینہ طیبہ میں دوسری جمعیت یہود کی تھی ۔ اگرچہ انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود حضور ﷺ نے ان کے ساتھ دوستی کا معاہدہ مساوی بنیادوں پر کیا ۔ معاہدہ کی دفعات کا مطالعہ کرکے انسان حیران ہوجاتا ہے نبی کریم ﷺ نے کس طرح ان کو مذہبی آزادی ، معاشرتی اور معاشی مساوی حیثیت سے بہرہ اندوز فرمایا تھا۔ اس معاہدہ کی چند دفعات آپ بھی ملاحظہ فرمائیں : وان الیھود ینفقون مع المومنین ماد اموا محاربین ، وان یھود بنی عوف امۃ المومنین للیھود دینھم وللمسلمین دینھم موالیھم وانفسھم من اظلم واثم فانہ ، لا یوتغ الانفسہ واھل بیتہ ۔۔۔۔ وان علی الیھود نفقتھم و علی المسلمین نفقتھم وان بینھم النصر علی من حارب اھل ھذہ الصحیفۃ فان یثرب حرام حرفھا لا ھل ھذہ الصحیفۃ (ابن ہشام ص 122 ج 2) ترجمہ : ” یہودی اور مسلمان اپنے اپنے خرچ کے ذمہ دار ہوں گے جب تک وہ مل کر جنگ کریں گے اور بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک گروہ ہیں ۔ یہودیوں کے لیے ان کا دین ، مسلمانوں کے ان کا دین ، سوائے اس شخص کے جو ظلم کرتا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پس وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعابل کو برباد کرتا ہے۔ یہود پر اپنے مصارف کی ذمہ داری ہے ، مسلمانوں پر اپنے مصارف کی ۔ اس معاہدہ میں شریک ہونے والے لوگوں کے ساتھ جو شخص جنگ کرے گا ۔ یہ ایک دوسرے کی اس کے مقابلہ میں امداد کریں گے اور ان کے درمیان ایک دوسرے کے لیے خلوص و خیر خواہی لازمی ہے۔ گناہ سے اجتناب ضروری ہے اور یثرب کے اندر کسی قسم کا فتنہ و فساد کرنا شرکائے معاہدہ کے لیے جرام ہے “۔ جن منصفانہ بلکہ فیاضانہ شرائط پر یہ معاہدہ طے ہوا تھا۔ توقع تو یہی تھی کہ اس معاہدہ کے جملہ شرکاء صدق دل سے اس کی پابندی کریں گے۔ مہاجر و انصار ہر وقت اس معاہدہ کی شرائط کو پیش نظر رکھتے لیکن یہودیوں نے کچھ عرصہ بعد اس معاہدہ کی اہمیت کو نظر انداز کرنا شروع کردیا جس کی متعدد وجوہات تھیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے استقبال میں گرمجوشی سے اس لیے حصہ لیا تھا کہ ان کا گمان تھا کہ یہ لٹے پٹے مہاجرین کی مالی حالت از حد خستہ ہے ، ان کے ممنون احسان ہو کر رہیں گے اور وہ ان نو وارد مسلمانوں کی طرح طرح کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے انہیں آلہ کار بنائیں گے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں میں جو ذہنی انقلاب برپا کیا ہے اس نے ان کو بالکل ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ ان کا سر اطاعت صرف اپنے رب ، اور نبی الزمان ﷺ کا بارگاہ عالی میں جھک سکتا ہے کسی اور قوت کے سامنے ان کی گردن خم نہیں ہو سکتی ۔ ان کا ایک اپنا تشخص ہے جو انہیں از حد عزیز ہے۔ وہ کسی قیمت پر اس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ۔ اس چیز نے یہودیوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنا شروع کردیا ۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ اوس و خزرج جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے نبی اعظم و آخر ﷺ کے طفیل آپس میں بھائی بھائی بنتے جا رہے ہیں ۔ انہیں اس اتحاد میں اپنے منصوبوں کی ناکامی کا خدشہ نظر آنے لگا ۔ نیز شریعت اسلامیہ کے وہ احکام جن کا تعلق معاشی و اخلاقی زندگی سے تھا وہ سراسر ان کے مفادات سے ٹکراتے تھے۔ اسلام ، سود سے بڑی سختی سے منع کرتا ہے بلکہ سود خوروں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کی دھمکی دیتا ہے اور یہودیوں کی ساری خوشحالی کا دارومدار سود خوری پر تھا۔ وہ کب یہ گوارا کرسکتے تھے کہ ایک ایسی منظم جماعت وجود میں آجائے جو طاقت میں آنے کے بعد بزور بازو سودی کا روباری کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے ۔ کم تولنا ، کم ماپنا ، خریدار کو سادہ لوحی سے ناجائز فائدہ اٹھانا اسلام نے قطعاً حرام قرار دیا تھا لیکن ان کی تجارت کا فروغ نفع اندوزی کے ان ناجائز ذرائع پر تھا ، چناچہ مسلمانوں سے جو حسین توقعات انہوں نے وابستہ کر رکھی تھیں ان کے پورے ہونے کی امید نہ رہی ۔ نیز ان کا وجود ، ان کی معاشی خوشحالی اور اخلاقی گرواٹ کے لیے پیام مرگ تھا۔ اس لیے وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھ جب وہ اسلام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ جیسا کہ پیچھے عرض کیا جا چکا ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے ہجرت مدینہ کے فو راً بعد یہود کے ان سارے گروپوں سے معاہدے کیے تاکہ داخلی طور پر امن وامان قائم کیا جاسکے۔ یہود نے بھی نہایت دلچسپی سے یہ معاہدے کیے لیکن مدینہ کے اندر رہنے والے یہود کے ایک گروہ بنی قنیقاع نے تو بہت جلد ہی ان معاہدوں کی خلاف ورزی شروع کردی جس کے نتیجہ میں وہ ابتدائی تین سالوں ہی کے اندر مدینہ النبی کو خالی کرنے پر مجبور ہوگئے اور چار و ناچار انہوں نے مدینہ کو چھوڑ دیا اور پھر اس کے جلد ہی بعد یہود کا ایک بہت بڑا سردار کعب بن اشرف بھی غازیان اسلام نے قتل کردیا جس نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ کیے گئے سارے معاہدوں کو بالائے طاق رکھ کر کفار مکہ سے ساز باز شروع کر رکھی تھی اور خصوصاً بدر کے بعد اس نے مہم کو اور بھی زیادہ تیز کردیا تھا لیکن احد میں چونکہ مسلمانوں کو بھی بہت نقصان پہنچا اور اس نقصان سے جہاں اہل مکہ خوش ہوئے وہاں مدینہ کے مضافات کے یہودیوں نے بھی بغلیں بجانا شروع کردیں اور نہ صرف یہ ہے کہ معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کی بلکہ بنی اعظم و آخر ﷺ کے قتل کرنے کی سازش کی جو بروقت بےنقاب ہوگئی جس کا مختصر ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ جب ان کی یہ غداری اور یہ سازش ناکام ہوگئی تو آپ ﷺ نے ان کی اس کھلی اور واضح غداری کی پاداش میں اس دن کے اندر یہاں سے نکل جانے کا الٹی میٹم (Ultimatum) دے دیا ۔ یہود کو جب یہ پیغام پہنچا اور جیسا کہ اوپر گزر چکا کہ یہ یہود میں سے بنو نضیر کا قبیلہ تھا۔ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ خبر پا کر عبد اللہ بن ابی منافق سے رابطہ قائم کیا اور اس نے ان کو اپنی جگہ پر ٹکے رہنے کا مشورہ دیا کہ تم لوگ منتشر نہ ہو جائو تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ اس طرح ان لوگوں نے نبی کریم ﷺ کو پیغام بھیج دیا کہ حالات کچھ بھی ہوں ہم لوگ اپنی جگہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ لڑائی کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔ وہ پیغام تو روانہ کر ہی چکے تھے لیکن ان کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ ہم لوگوں نے اس طرح کا پیغام بھیج کر غلطی کی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے ۔ ابھی صرف چھ ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے اپنے قلعوں کے اندر بند ہونا شروع کردیا اور آپس میں صلاح مشورے شروع کردیئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے اندر نبی اعظم و آخر ﷺ اور دوسرے سروفرشان اسلام کا رعب ڈال دیا اور وہ مضبوط قلعوں کے اندر رہنے اور بہت زیادہ مال و دولت رکھنے کے باوجود ایسے مرعوب ہوئے کہ ان کی ٹانگوں نے ان کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا جس کے نتیجہ میں انہوں نے مدینہ سے نکل جانے کی شرط کو قبول کرلیا ۔ زیر نظر آیت میں انہی بنو نضیر کے یہود کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ” وہ اللہ ہی تو ہے جس نے ان لوگوں کو جو اہل کتاب میں سے کافر ہیں ان کے گھروں سے پہلی ہی بار جمع کر کے باہرنکال دیا حالانکہ تم کو تو اس بات کا گمان ہی نہ تھا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں گے “۔ اور ان کو جب نبی کریم ﷺ کی طرف سے نکل جانے کا الٹی میٹم (Ultimatum) دیا گیا تھا اور انہوں نے بزعم خویش پہلی بار اس کو قبول نہ کیا اسی حالت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا : ” اور انہیں بھی غلط فہمی تھی کہ ان کے قلعے ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا لیں گے پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے اجاز رہے تھے ۔ “ فرمایا مسلمانوں کے لیے بھی عبرت ہے کہ ان لوگوں کا اپنے گھروں ، قلعوں اور سر سبز و شاداب باغوں اور زرخیز زمینوں کو چھوڑ کر چلے جانا کوئی معمولی بات نہ تھی ۔ وہ اس جگہ صدیوں سے آباد چلے آ رہے تھے ، منڈیوں اور بازاروں پر ان کا مکمل طور پر قبضہ تھا۔ لیکن سب کچھ چھوڑ کر چلے جانا کوئی معمولی بات نہ تھی اس لیے مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کے لیے ارشاد فرمایا گیا کہ : ” اے عقل و فکروالو ! اس سے تم بھی عبرت حاصل کرو “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم مسلم کو آج بد قسمتی سے یہ سبق بالکل بھول گیا ہے کہ بزدلی اور سستی و کاہلی کا تعلق کفر سے ہے اسلام سے نہیں ۔ یاد رہے کہ دوسری قوموں کے سہا رے زندہ رہنا بھی بزدلی اور سستی ہے جس کا تعلق کفر ہے اس لیے ہم مسلمانوں کو من حیث القوم اس بات کا تجزیہ کرنا ضروری اور لازمی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح اہل کتاب اہل کتاب کہلانے کے باوجود کفر کے مرتکب ہوئے ہم بھی اہل اسلام کہلانے کے باوجود اسی حالت سے دو چار ہوں ؟ غور کریں گے تو آپ کا جواب بھی یقینا ہاں میں ہوگا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہماری قوم کو عقل و فکر سے کام لینے کی تو فقب عطا فرما دے۔
Top