Urwatul-Wusqaa - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ان (یہود) سے دلوا دیا (اس میں تمہارا حق نہ تھا) کیونکہ تم نے اس کے لیے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے (فتح و شکست اس کے قبضہ میں ہے) اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے
بنی نضیر کے ہاں سے جو کچھ تم کو حاصل ہوا دراصل یہ محض رسول اللہ ﷺ ہی کا حق تھا 6 ؎ جیسا کہ آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ بنی نضیر کے یہود کو جو یہاں سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا وہ ان ہی کے کیے کی سزا تھی لیکن جب ان کو الٹی میٹم (Ultimatum) دیا گیا تو ایک بار انہوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور پھر جب ان پر مسلمانوں کو باقاعدہ چڑھائی کا حکم دیا گیا اور مسلمانوں نے چڑھائی کردی تو انہوں نے مزاحمت کی کوشش بھی کی ۔ اس مزاحمت کو روکنے کے لیے ان کے وہ مخصوص درخت کاٹ کر رکھ دیئے گئے اور جوں ہی ان درختوں کے کاٹ دینے کا حکم دیا گیا اور وہ کٹ چکے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اپیل کردی کہ اگر ان کو یہاں سے نکل جانے دیا جائے جیسا کہ پہلے ان کو الٹی میٹم (Ultimatum) دیا گیا تھا تو وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ، چناچہ جو نہی نبی کریم ﷺ کو یہ پیغام ملا تو آپ ﷺ نے ان کو کہلا بھیجا کہ تم اب بھی اپنی اس مہلت سے فائدہ اٹھا سکتے ہو اور جو مدت ابھی باقی ہے اس کے اندر اندر تم یہاں سے نکل جائو تو تم کو امن وامان سے نکل جانے کی اجازت ہے اور تم اپنے ساتھ جو کچھ سروسامان لے جاسکتے ہو اس کو بھی لے جائو ۔ چناچہ انہوں نے اپنے اونٹ سامانوں سے لدے اور جو کچھ وہ ایک دفعہ لے جاسکتے تھے سب لے کر نکل گئے۔ تا ہم ان کے قلعے ، باغات ، زمینیں ، دکانیں اور دوسرے بہت سے سروسامانی باقی رہ گئے جن پر آپ ﷺ نے قبضہ کرلیا ۔ اس طرح جو کچھ بنی نضیر سے حاصل ہوا وہ دراصل بغیر کسی نقصان کے حاصل ہوگیا اور عام جہاد کرنے اور جنگ کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ لہٰذا ان اموال کے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ یہ اموال دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت بغیر کسی لڑائی اور جنگ کے عطا کردیئے۔ ( افاء) کی اصلیء ہے ۔ اس مادہ کے جو الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں وہ (ینفقو) (16 : 48) (فاء ت) (49 : 9) (فاء وا) (3 : 226) (تفنیء) (49 : 9) ہیں۔ ( افاء ) اس نے لوٹایا ۔ اس نے فے میں عطا فرما دیا ۔ افاء ۃً سے جس معنی لوٹانے اور فئے میں دینے کے ہیں ۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب اس لیے فئے سایہ کو بھی کہا جاتا ہے۔ کفار سے جو اسلام کو اموال حاصل ہوتے ہیں ان کی تین اقسام بتائی گئی ہیں۔ (1) غنیمت (2) فئے (3) خراج اور کہا جاتا ہے کہ غنیمت وہ ہے جو بحالت جنگ کفار سے بزور شمشیر یعنی طاقت استعمال کرنے کے بعد وصول ہوجائے اور اس کے متعلق وضاحت ہے کہ اس کا پانچواں حصہ نکال کر بقیہ سارا مال مجاہدین کا حق ہے اور فئے وہ ہے جو کفار سے بغیر جنگ کے مال حاصل ہوجائے یعنی چڑھائی تو ان پر کی جائے لیکن جنگ نہ ہو اور وہ خوف کھا کر بھاگ جائیں اور اپنے اموال چھوڑ جائیں جن پر لشکر اسلام قبضہ کرے اور خراج وہ ہے کہ کفار کو دعوت اسلام پیش کی جائے اور اگر وہ اسلام کو قبول نہ کریں لیکن اسلامی حکومت کے زیر اثر اپنے ہی علاقہ میں رہنا چاہتے ہوں تو وہاں سے جو کچھ مال اسلامی حکومت کو باقاعدہ ملتا رہے اور اس طرح گویا وہاں کی حکومت اسلامی حکومت تو نہیں ہوگی البتہ اسلامی حکومت کے تحت تسلیم کی جائے گی اور جب تک وہ خراج پیش کرتے رہیں گے اسلامی حکومت کی باج گزار ہو کر وہ اس کی محافظت میں رہیں گے۔ لیکن اموال ” فے “ میں جو تشریح کی گئی ہے قرآن کریم میں جس جگہ یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی یہ وضاحت صحیح معلوم نہیں ہوتی لیکن یہ معاملہ جب طول طلب ہے کیونکہ اس میں کلام طویل ہے۔ قرآن کریم میں (افاء ) لفظ تین جگہ استعمال ہوا ہے۔ سورة الاحزاب کی آیت 50 میں اور سورة الحشر کی آیت 6 اور 7 میں۔ سورة الاحزاب کی تفسیر میں ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں ۔ زیر نظر آیت میں جو فرمایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ فئے سے فی الواقع مراد یہی ہے کہ مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی طرف لوٹا دیا ہے جو بنو نضیر چھوڑ کر چلے گئے ہیں حالانکہ غازیان اسلام نے بنو نضیر کے خلاف جو کارروائی کی تھی اس میں باقاعدہ جنگ نہیں کی گئی تھی کیونکہ جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی تھی ۔ میدان جنگ قائم ہی نہ ہوا اور نہ ہی ان پر گھوڑے دوڑائے گئے اور نہ ہی اونٹ استعمال کیے گئے ۔ بلاشبہ اس کی نوبت نہ آئی تھی تا ہم مسلمانوں کو ان پر حملہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اس سلسلہ میں مسلمانوں نے تیاری بھی کی اور حملہ بھی کیا اور اسی حملہ کے دوران وہ درخت کاٹے گئے تھے جن کا ذکر گزشتہ آیت میں گزر چکا ہے لیکن جونہی یہ حالات پیدا ہوئے تو بنو نضیر نے وہاں سے نکل جانا منظور کرلیا اور وہ اسی مدت کے اندر جوان کو الٹی میٹم (Ultimatum) سنائی گئی تھی وہاں سے نکل گئے۔ اس طرح وہاں سے جو مال حاصل ہوا اس میں لوگوں نے مختلف رائیں قائم کرلیں۔ اس سے پہلے چونکہ بدر میں باقاعدہ لڑائی ہوئی تھی اور وہاں مسلمانوں کو اموال بھی حاصل ہوئے تھے اور ان کو تقسیم کیا جا چکا تھا اس لیے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ان اموال کو بھی اسی طرح تقسیم کیا جائے گا لیکن یہ اموال رسول اللہ ﷺ نے اس نسبت سے تقسیم نہ کیے تے جس پر بعض منافقین نے اعتراض کھڑے کیے ہوں گے اس لیے زیر نظر آیت میں مسلمانوں کی تفہیم کرائی گئی کہ بنی نضیر سے مال کے حاصل ہونے اور بدر کے میدان سے اموال حاصل ہونے میں کیا فرق ہے تاکہ بات کی وضاحت ہوجائے اور معترضین کے شبہات دور ہوجائیں یا کم از کم وہ ہرزہ سرائی سے باز آجائیں ۔ اس لے ارشاد فرمایا کہ ” جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان یہود سے دلوایا اس میں دراصل تمہارا حق نہ تھا کیونکہ تم نے اس کے لیے نہ گھوڑے دواڑئے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ہرچیز پر قادر ہے
Top