Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 37
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَادِرٌ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يُّنَزِّلَ : اتارے اٰيَةً : کوئی نشانی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور انہوں نے کہا کیونکر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی اس پر نہیں اتاری گئی ، تم کہہ دو اللہ یقینا اس پر قادر ہے کہ ایک نشانی اتار دے لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے
ان کا مطالبہ کیا ہے ؟ یہی کہ آپ ﷺ پر کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری جاتی : 57: یہ مطالبہ کرنے والے کون لوگ ہیں ؟ وہی کفار جن کا ذکر پیچھے گزر چکا۔ یہ نشانی طلب کر رہے ہیں یا عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں ؟ اس لئے کہ دراصل وہ مذاق کر رہے ہیں جب آپ ﷺ بار بار کہتے ہیں کہ اگر تم نے حق کو تسلیم نہ کیا تو تباہ و برباد ہوجاؤ گے۔ دراصل ان کا مدعایہ ہے کہ جب ہم اس حق کو جس کو تو ” حق “ کہتا ہے قبول نہیں کر رہے تو پھر ہم پر عذاب آکیوں نہیں جاتا۔ اس طرح وہ اور بھی فرمائشیں نبی اعظم و آخر ﷺ سے کیا کرتے تھے جیسے یہ کہ اس ریگ زار میں دریا بہنے لگیں۔ چشم زون میں یہاں سرسبز و شاداب باغات لہلہانے لگیں اور ان کے نیچے ندیاں رواں دواں ہوں۔ آپ ﷺ سچے نبی ہیں تو ہم پر کوئی آسمان کا ٹکڑا گرا دے وغیرہ وغیرہ اور ظاہر ہے کہ ان کے یہ مطالبے قبول حق کے لئے نہ تھے بلکہ استہزاء تھے جیسا کہ پیچھے حاشیہ 54 میں بیان ہوا فرمایا ” اے پیغمبر اسلام ! تم کہہ دو اللہ یقیناً اسی پر قادر ہے کہ ایک نشانی اتاردے لیکن ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں۔ “ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ نادان اور مغرور لوگ اس طرح کی نشانی کے ظہور کے نتائج سے آگاہ نہیں۔ ان کے نزدیک یہ محض ایک کھیل تماشہ ہے حالانکہ وہ نشانی اگر ظاہر ہوگئی تو سب کی کمر توڑ کر رکھ دے گی اور وہ اللہ کی اس سنت سے بھی غافل ہیں جو انبیائے کرام اور ان کے مکذبین کے معاملے میں اس نے جاری کر رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کو فوراً پکڑ لے وہ ان کو ایک خاص مدت تک مہلت دیتا ہے جس میں ان پر ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کی حجت پوری کردی جاتی ہے۔ جب یہ حجت پوری ہو چکتی ہے تب اللہ تعالیٰ ان کو پکڑ لیتا ہے اور جب وہ پکڑ لیتا ہے تو پھر ان کو کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ ہاں ! وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پیغمبر کی دھمکی جھوٹی ہے یا خدا کے ہاتھ ہی بےبس ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ جو سرکشوں کو ڈھیل پر ڈھیل دیتا ہے توا س کی اصل وجہ یہ ہے کہ اللہ کی تدبیربڑی محکم ہوتی ہے وہ رسی خواہ کتنی ہی دراز کردے لیکن ہر انسان کی چوٹی اسی کے ہاتھ میں رہتی ہے کیونکہ وہ اس کے قابو سے باہر نہیں ہوجاتا۔ پھر یہ لوگ کتنے بدقسمت ہیں کہ اس رحمت سے نا آشنا ہیں جو اس مہلت کے اندر مضمر ہے اچھا ہوتا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے کہ اللہ تعالیٰ رحمت میں سبقت کرتا ہے ، غضب میں سبقت نہیں کرتا وہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے اگرچہ وہ کتنے ہی گندے کیوں نہ ہوں کیونکہ ہیں بہر حال اسی کے بندے۔ وہ توبہ و اصطلاح کے سارے دروازے اس وقت تک کھلے رکھتا ہے جب تک وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے خود ان کو اپنے اوپر بند نہ کرلیں اور پھر وہ کتنے ہی بدنصیب ہوں گے جو اپنے اوپر خود ان دروازوں کو بند کردیں یعنی اس حال میں اس دار فانی سے رخصت ہوجائیں۔
Top