Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 22
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ الصُّمُّ : بہرے الْبُكْمُ : گونگے الَّذِيْنَ : جو کہ لَا يَعْقِلُوْنَ : سمجھتے نہیں
اللہ کے نزدیک بدترین جانور یہ بہترے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے
اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ۔ اگرچہ لہجہ کی درشتی اوپر والے ٹکڑے میں جھلک رہی تھی لیکن اس ٹکڑے میں بالکل نمایاں ہوگئی ہے۔ خدا کے نزدیک بدترین جانور : فرمایا کہ خدا کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ مطلب یہ کہ اگر تم سب کچھ سن کر اسی طرح بہرے گونگے بنے اور رسول کی سنی ان سنی کرتے رہے۔ عقل و فہم سے تم نے کام نہ لیا تو تم خدا کے نزدیک بدترین جانور ہو۔ قرآن نے جگہ جگہ یہود اور مشرکین کو بدترین جانور کہا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ انہوں نے سننے سمجھنے سے انکار کردیا۔ ظاہر ہے کہ جو گروہ بھی ان کی روش اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہے۔ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ انسان کا اصلی وصف امتیازی اس کا سننا سمجھنا ہی ہے۔ اس وصف سے یہ اپنے کو محروم کرے تو بس یہ دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک جانور ہی ہے اور جانور بھی بدرترین جانور۔ بدترین جانور اس لیے کہ جانور خواہ کتنا ہی برا ہو وہ اپنی جبلت پر قائم رہتا ہے اور اپنے محل میں اس کی ایک قیمت اور اس کی ایک افادیت ہے لیکن انسان اپنی خصوصیت نوعی سے محروم ہوجائے تو اس کے آگے شیطان بھی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے، یہ عقل و بصیرت سے کام لے تو جس طرح اس کے عروج کی کوئی حد نہیں اسی طرح عقل و بصیرت سے محروم ہوجانے کی صورت میں اس کی پستی کی بھی کوئی انتہا نہیں۔
Top