Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
جس طرح ” بدر میں “ یہ بات ہوئی تھی کہ تیرے پروردگار نے سچائی کے ساتھ تجھے گھر سے باہر نکالا تھا اور یہ واقعہ ہے کہ مومنوں کا ایک گروہ اس بات سے ناخوش تھا
کما اخرجل ربک کے لفظ کما پر بحث : 10: سورة الانفال کی آیت پانچ جو کَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ سے شروع ہورہی ہے اس کے لفظکَمَاۤ پر بحث کی گئی ہے اور مفسرین نے اس کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ کَمَاۤ ایک لفظ ہے جو تشبیہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور غور طلب بات اس جگہ یہ ہے کہ یہاں تشبیہ کسی چیز کی کس چیز سے ہے ؟ اس کی مختلف توجیہات بیان کی گئی ہیں اور خصوصاً امام تفسیر ابو حیان (رح) نے اس طرح کے پندرہ اقوال نقل کئے ہیں اور تقریباً اکثر مفسرین نے بحث کی ہے اور کسی نے کسی اور کسی نے کسی کو ترجیح دی ہے اور پھر تین احتمالات کو زیادہ پسند کیا گیا ہے۔ 1 : یہ کہ گزشتہ آیات میں سچے مومنین کے لئے آخرت میں درجات عالیہ اور مغفرت اور باعزت روزی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان آیات میں اس وعدہ کے یقینی ہونے کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ آخرت کا وعدہ اگرچہ ابھی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ نصرت و فتح غزوہ بدر میں آنکھوں کے سامنے آچکا ہے اس سے عبرت پکڑو اور یقین کرو کہ جس طرح یہ وعدہ دنیا میں پورا ہوچکا ہے اسی طرح آخرت کا وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ (تفسیر قرطبی) 2 : اس تشبیہ سے مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ جس طرح غزوہ بدر کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت صحابہ کرام ؓ کا آپس میں کچھ اختلاف رائے ہوگیا تھا پھر حکم خداوندی کے تحت سب نے آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور اس کی برکات اور اچھے نتائج کا ظہور سامنے آگیا اور اس طرح جہاد کے شروع میں کچھ لوگوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار ہوا پھر حکم ربانی کے ماتحت سب نے اطاعت کی اور اس کے مفید نتائج اور اعلیٰ ثمرات کا مشاہدہ ہوگیا۔ (بحر محیط) 3 : اس جگہ لفظ ٹٹنصرکثث محذوف ہے اور کماکا لفظ تشبیہ کے لئے نہیں بیان سبب کے لئے استعمال ہوا ہے اور معنی یہ ہیں کہ غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے جو خاص نصرت اور مدد آپ ﷺ کی فرمائی ہے اس کا سبب یہ تھا کہ اس جہاد میں آپ ﷺ نے جو کچھ کیا کسی اپنی خواہش اور رائے سے نہیں کیا بلکہ خالص امر ربی اور حکم خداوندی کے تابع کیا ۔ اس کے حکم پر آپ اپنے گھر سے نکلے اور اطاعت حق کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے اور یہی ہوا اور یہی ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی امداد و نصرت اس کے ساتھ ہوجاتی ہے اور آءت کے اس جملہ میں یہ تینوں معنی مستعمل اور صحیح ہیں ۔ ازیں بعد اس پر نظر ڈالئے کہ قرآن کریم نے اس جہاد کے لئے رسول کریم ﷺ کا خود نکلنا ذکر نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نکالا اور اسی لفظ نے سارے مورخین اور سیرت نگاروں کے اس نظریہ کو غلط ثابت کردیا کہ آپ ﷺ مدینہ سے اس تجارتی قافلہ کو روکنے کے لئے نکلے تھے جو قریش مکہ کا قافلہ تجارت ابو سفیان کی معیت میں شام سے بہت سا تجارتی مال خرید کر لارہا تھا۔ فرمایا : بالکل غلط بات ہے بلکہ آپ ﷺ کا مدینہ سے نکلنا صرف اس لشکر کو روکنا تھا جو مکہ سے مدینہ پر چڑھائی کرنے کی غرض سے نکلا تھا۔ ہاں ! مکہ والوں کو اپنے دل میں یقیناً یہ خطرہ ہوگا کہ ہمارا قافلہ تجارت راستہ میں روک نہ لیا جائے اور اس خروج میں ان کی یہ ضرورت بھی موجود ہے کیونکہ جس کے دل میں چور ہوتا ہے وہ دوسروں کو بھی چور سمجھ سکتا ہے اور اس سے ہمارے سیرت نگاروں اور مغازی پر لکھنے والوں نے یہ نظریہ لے لیا ہے ورنہ قرآن کریم کی آیت زیر بحث اس بات پر ناطق ہے کہ آپ ﷺ کا مدینہ سے نکلنا بطور وفاع تھا نہ کہ تجارتی قافلہ کو لوٹنا۔ جن لوگوں نے غزوہ بدر کے واقعات تحریر کئے ہیں اور اس کی تفصیل میں اس طرح کی بات لکھ دی ہے انہوں نے نہایت بےاحتیاطی سے کام لار ہے اور قرآن کریم کے الفاظ کی پیروی کرنے کی بجائے مکہ والوں کی افواہوں پر کان دھرا ہے۔ ان کی اس رائے سے ایک سچا مسلمان جو ذرا بھی عقل و فکر اور قرآن کریم پر غور کرے گا کبھی اتفاق نہیں کرسکتا۔ ہاں ! بلاشبہ اس وقت جب آپ ﷺ مدینہ سے نکلے تھے کچھ مسلمان آپ ﷺ کے اس نکلنے پر راضی نہ تھے اگرچہ اس کی وجہ حالات کا تقاضا تھا اور پھر واقعات بدر نے ثابت کردیا کہ ان کی رائے بھی درست نہ تھی جن کا ارادہ اس وقت مدینہ سے نکلنے کا نہ تھا اور یہ بھی کہ بعد میں عرصہ تک ان کو اس بات کا افسوس رہا کہ انہوں نے اس وقت ایسی رائے کیوں قائم کی۔ غزوہ بدر کی طرف نکلنے کو کچھ مسلمان پسند نہیں کرتے تھے : 11: غزوہ بدر سے چند ماہ پہلے علاقہ کے حالات معلوم کرنے والے صحابہ کرام ؓ کے ہاتھوں مکہ کی ایک معروف شخصیت رجب 3 ہجری میں ماری گئی اور یہ معروف شخصیت عمرو بن الخصرمی کی تھی۔ جس مہم میں یہ مارا گیا اس مہم کو مغاذی میں عبداللہ بن بحش کی مہم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس قتل نے مکہ والوں کے حلات پر جلتی پر تیل کا معاملہ کیا اور ان کا غصہ اس قدر بھڑکا کہ وہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا چاہتے تھے۔ بلاشبہ یہ وہی وقت تھا جب ابو سفیان شام سے بہت سا مال خرید کر لا رہا تھا اور اس کے اس تجارتی قافلہ میں کروڑوں کا سامان موجود تھا۔ مکہ والوں کو اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ کہیں ان کے اس تجارتی قافلہ پر ہاتھ صاف نہ کردیئے جائیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے وہم و گمان میں بھی ایسی بات نہ تھی بلکہ مدینہ میں جب یہ خبریں گرم ہوئیں کہ قریش ایک جمعیت ظیم لے کر مدینہ کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اس وقت آپ ﷺ نے مدافعانہ طور پر مدینہ سے نکل کر دفاع کرنا پسند کیا اور اس طرح معرکہ بدر پیش آیا۔ یہ بات سب کے نزدیک مسلم ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ قریش بڑی تیاری کر کے مکہ سے نکلے ہیں تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے مخاطب ہو کر استمزاج کیا۔ مہاجرین نے نہایت جوش کے ساتھ آمادگی ظاہر کی لیکن نبی اعظم و آخر ﷺ انصار کی مرضی دریافت کرنا چاہتے تھے۔ یہ دیکھ کر سعد ؓ اٹھے جو انصار کے سرداروں میں سے تھے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے ؟ ہم وہ لوگ نہیں ہیں کہ جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا خدا دونوں جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔ اللہ کی قسم ! اگر آپ حکم دیں تو ہم آگ اور سمندر میں کود پڑیں۔ ہاں ! ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو شرکت سے ہچکچاتے تھے جیسا کہ زیر نظر آیت میں ارشاد الٰہی ہے کہ (مومنوں کا ایک گروہ اس بات پر ناخوش تھا) اور ان کی یہ ناخوشی محض وسائل کی کمی کے باعث تھی اور پھر حالات نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی رائے درست نہ تھی اگرچہ وہ اپنی رائے کے خلاف بھی غزوہ بدر میں موجود تھے اور انہوں نے آپ ﷺ کے حکم کے خلاف ورزی بالکل نہیں کی تھی۔
Top