Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 7
وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب يَعِدُكُمُ : تمہیں وعدہ دیتا تھا اللّٰهُ : اللہ اِحْدَى : ایک کا الطَّآئِفَتَيْنِ : دو گروہ اَنَّهَا : کہ وہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَتَوَدُّوْنَ : اور چاہتے تھے اَنَّ : کہ غَيْرَ : بغیر ذَاتِ الشَّوْكَةِ : کانٹے والا تَكُوْنُ : ہو لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور يُرِيْدُ : چاہتا تھا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّحِقَّ : ثابت کردے الْحَقَّ : حق بِكَلِمٰتِهٖ : اپنے کلمات سے وَيَقْطَعَ : اور کاٹ دے دَابِرَ : جڑ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب ایسا ہوا تھا کہ اللہ نے تم سے وعدہ فرمایا تھا کہ دو جماعتوں میں سے کوئی ایک جماعت تمہارے ہاتھ ضرور آئے گی اور تمہارا حال یہ تھا کہ تم چاہتے تھے کہ جس جماعت میں لڑائی کی طاقت نہیں وہ ہاتھ آجائے اور اللہ چاہتا تھا کہ اپنے وعدہ کے ذریعہ حق کو ثابت کر دے اور دشمنان حق کی جڑیں بنیادیں کاٹ کر رکھ دے
دو جماعتوں میں سے ایک کو تمہارے ہاتھ ینے کا وعدہ الٰہی : 13: نبی اعظم و آخر ﷺ اور دوسرے مسلمانوں کو جب یہ اطلاع ملی کہ قریشیوں کا ایک اعظم لشکر اپنے تتجارتی قافلہ کی حفاظت کے لیے نکل چکا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے عزائم مدینہ پر چڑھائی کرنے کے ہیں تو اس طرح گویا قریش کی دو جماعتیں پیش نظر تھیں ایک وہ جماعت جو تجارتی قافلہ کی تھی جس کو قرآن کریم نے غَیْرَ سے تعبیر کیا ہے اور دوسری قریش مکہ کے لشکر عظیم کی جماعت جس کو قرآن کریم نے نفیر کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ گویا عام مسلمانوں کی آزمائش بھی تھی کہ ان کا ذہن اور ان کی توجہ کس جماعت کی طرف مبذول ہوتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ انسان آسانی چاہتا ہے اور سارے انسانوں کی نظر ایک جیسی عمیق نہیں ہوتی۔ اس لئے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہمارے ہاتھ تجارتی قافلہ پڑے اور ہم ان سے سارا مال و دولت حاصل کرلیں جس سے مکہ والوں کی طاقت بھی کمزور ہو اور ان کے مقابلہ میں ہماری طاقت بڑھ جائے اور بعض صحابہ کرام ؓ کی رائے اور خود نبی اعظم و آخر ﷺ کی رائے وہی تھی جو مشیت ایزدی میں بھی طے تھی کہ ان کا آمنا سامنا قریش مکہ کے لشکر جرار سے ہو اور یہ لوگ میدان کار زار میں وہ کامیابی حاصل کریں جو رہتی دنیا تک سنہری حروف سے لکھی جاتی رہے اور ان کا نام چوروں اور لٹیروں کی فہرست میں نہ آئے۔ تمہارے ہاتھ میں وہ جماعت دے دی گئی جس سے تمہارا نام زندہ وجاوید ہوا : 14: بلاشبہ تجارتی قافلہ پر قبضہ پر قبضہ آسان اور بےخطر تھا اور مسلح افواج پر مشکل اور خطرات سے پر اس لئے بعض صحابہ کرام ؓ کی تمنا اور خواہش یہ تھی کہ وہ تجارتی قافلہ ہو اس لئے ان کو مخاطب کر کے بیان فرمایا جا رہا ہے کہ تم کو تو یہی پسند تھا کہ غیر مسلح تجارتی قافلہ پر تمہارا قبضہ ہوجائے مگر اللہ تعالیٰ کا رادہ یہ تھا کہ اسلام کا اصل مقصد حاصل ہو اور حق کا حق ہونا واضح ہوجائے اور کافروں کی جڑ کٹ جائے اور ظاہر ہے کہ ہر کام اس وقت ہو سکتا ہے جب کہ مسلح فوج سے مقابلہ اور اس پر مسلمانوں کا قبضہ اور غلبہ ہوجاتا۔ چناچہ یہی کچھ ہوا جو مسلمانوں میں حق میں خیر اور بھلائی تھا اور میدان کار زار میں چند نہتوں کے ہاتھوں بہت سے ہتھوں والوں کو شکست دی اور قریش مکہ کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر آدمی قید کر لئے گئے اور بھاگ کر جانے والے کافی ساز و سامان بھی چھوڑ گئے جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور اس طرح دونوں چیزیں مسلمانوں کو مل گئیں کہ وہ مجاہد بن کر میدان کار زار میں اترے اور وہاں سے غازی بن کر نکلے اور جو غرض مال و متاع کی تھی وہ بھی بلاشبہ پوری ہوئی اور کافی حد تک وہاں سے مال ان کے قبضہ میں آیا جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔
Top