Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
اور حکم دیا تیرے رب نے شہد کی مکھی کو کہ بنا لے پہاڑوں میں گھر اور درختوں میں اور جہاں ٹٹیاں باندھتے ہیں11
11 یعنی انگور کی بیل چڑھانے کو جو ٹٹیاں باندھتے ہیں یا جو عمارتیں لوگ تیار کرتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو حکم دینے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی فطرت ایسی بنائی جو باوجود ادنیٰ حیوان ہونے کے نہایت کاریگری اور باریک صنعت سے اپنا چھتہ پہاڑوں، درختوں اور مکانوں میں تیار کرتی ہے۔ ساری مکھیاں ایک بڑے مکھی کے ماتحت رہ کر پوری فرمانبرداری کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان کے سردار کو " یعْسُوب " کہا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ مکھیوں کا جلوس چلتا ہے۔ جب کسی جگہ مکان بناتی ہیں تو سب خانے " مسدس متساوی الاضلاع " کی شکل پر ہوتے ہیں بدون مسطر و پرکار وغیرہ کے اس قدر صحت و انضباط کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ایک ہی شک پر تمام خانوں کا رکھنا آدمی کو حیرت زدہ کردیتا ہے۔ حکماء کہتے ہیں کہ مسدس کے علاوہ کوئی دوسری شکل اگر اختیار کی جاتی تو لامحالہ درمیان میں کچھ جگہ فضول خالی رہتی۔ فطرت نے ایسی شکل کی طرف راہنمائی کی جس میں ذرا سا فرجہ بھی بیکار نہ رہے۔
Top