Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 67
وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّ رِزْقًا حَسَنًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
وَ : اور مِنْ : سے ثَمَرٰتِ : پھل (جمع) النَّخِيْلِ : کھجور وَالْاَعْنَابِ : اور انگور تَتَّخِذُوْنَ : تم بناتے ہو مِنْهُ : اس سے سَكَرًا : شراب وَّرِزْقًا : اور رزق حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : عقل رکھتے ہیں
اور میووں سے کھجور کے اور انگور کے بناتے ہو اس سے نشہ اور روزی خاصی9 اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے واسطے جو سمجھتے ہیں10
9 یعنی ان میووں سے نشہ لانے والی شراب کشید کرتے ہو۔ اور کھانے پینے کی دوسری عمدہ چیزیں مثلاً شربت، نبیذ، سرکہ اور خشک خرمایا کشمش وغیرہ ان سے حاصل کرتے ہو۔ (تنبیہ) یہ آیت مکی ہے شراب مکہ میں حرام نہ ہوئی تھی، پینے والے اس وقت تک بےتکلف پیتے تھے۔ ہجرت کے بعد حرام ہوئی پھر کسی مسلمان نے ہاتھ نہیں لگایا۔ تاہم اس مکی آیت میں بھی " سکرًا " کے بعد " ورزقاً حسنًا " فرما دیا کہ جو چیز آئندہ حرام ہونے والی ہے اس پر " رزق حسن " کا اطلاق کرنا موزوں نہیں۔ 10 یہاں " یَعْقِلُوْنَ " کا لفظ جو عقل سے مشتق ہے " سکرًا " کے تذکرہ سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ چونکہ نشہ عقل کو زائل کردیتا ہے۔ اس لیے اشارہ فرما دیا کہ آیات کا سمجھنا عقل والوں کا کام ہے نشہ پینے والوں کا نہیں۔
Top