Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ3 سزا میں ان کی کمائی کی تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے4 اور اللہ غالب ہے حکمت والاف 5
3 یعنی پہلی مرتبہ چوری کرے تو داہنا ہاتھ گٹے پر سے کاٹ دو ۔ باقی تفاصیل کتب فقہ میں ملیں گی۔ پچھلے رکوع میں ڈکیتی وغیرہ سزا ذکر کی گئی تھی درمیان میں بعض مناسبات کی وجہ سے جن کو ہم بیان کرچکے ہیں مومنین کو چند ضروری نصائح کی گئیں اب پھر سے پچھلے مضمون کی تکمیل کی جاتی ہے۔ یعنی وہاں ڈکیتی کی سزا مذکور ہوئی تھی اس آیت میں چوری کی سزا بتلا دی۔ 4 یعنی جو سزا چور کو دی جارہی ہے وہ مال مسروق کا بدلہ نہیں بلکہ اس کے معل " سرقہ " کی سزا ہے تاکہ اسے اور دوسرے چوروں کو تنبیہ ہوجائے بلاشبہ جہاں کہیں یہ حدود جاری ہوتی ہیں، دو چار ہی کی سزا یابی کے بعد چوری کا دروازہ قطعاً بند ہوجاتا ہے آجکل مدعیان " تہذیب " اس قسم کی حدود کو وحشیانہ سزا سے موسوم کرتے ہیں لیکن چوری کرنا اگر ان صاحبوں کے نزدیک کوئی مہذب فعل نہیں ہے تو یقینا آپ کی مہذب سزا اس غیر مہذب دستبرد کے استیصال میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اگر تھوڑی سی وحشت کا تحمل کرنے سے بہت سے چور مہذب بنائے جاسکتے ہوں تو حاملین تہذیب کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کے " تہذیبی مشن " میں اس وحشت سے مدد مل رہی ہے۔ بعض نام نہاد مفسر بھی اس کوشش میں ہیں کہ " قطع ید " (ہاتھ کاٹنے) کی سزا کو چوری کی انتہائی سزا قرار دیکر اس سے ہلکی سزا دہی کا اختیار شریعت حقہ سے حاصل کرلیں مگر مشکل یہ ہے کہ نہ تو چوری کی اس سے ہلکی سزا قرآن کریم میں کہیں موجود ہے اور نہ عہد نبوت یا عہد صحابہ میں اس کی کوئی نظیر پائی گئی۔ کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اتنے طویل عرصہ میں جتنے چور پکڑے گئے ان میں ایک بھی ابتدائی چور نہ تھا جس پر کم از کم بیان جواز ہی کے طور پر " قطع ید " سے ہلکی کوئی ابتدائی سزا جاری کی جاتی۔ کسی ملحد نے پرانے زمانہ میں اس " حد سرقہ " پر یہ بھی شبہ کیا تھا کہ جب شریعت نے ایک ہاتھ کی دیت پانچ سو دینا رکھی ہے تو اتنا قیمتی ہاتھ جس کے کٹنے پر پانچ سو دینار واجب ہوں دس پانچ روپیہ کی چوری میں کس طرح کاٹا جاسکتا ہے۔ ایک عالم نے اس جواب میں کیا جواب فرمایا " انھا لما کانت امینۃ کانت ثمینۃ فلما خانت ھانت " یعنی جو ہاتھ امین تھا وہ قیمتی تھا۔ جب (چوری کر کے) خائن ہوا تو ذلیل ہوا۔ 5 چونکہ غالب ہے اس لئے اسے حق ہے کہ جو چاہے قانون نافذ کر دے کوئی چون و چرا نہیں کرسکتا۔ لیکن چونکہ حکمت والا بھی ہے اس لئے یہ احتمال نہیں کہ محض اپنے اختیار کامل سے لے کر کوئی قانون بےموقع نافذ کرے۔ نیز وہ اپنے ناتواں بندوں کے اموال کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ کرسکے، یہ اس کی عزت اور غلبہ کے منافی ہے اور چوروں ڈاکوؤں کو یونہی آزاد چھوڑ دے یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔
Top