Tafseer-e-Usmani - An-Najm : 20
وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى
وَمَنٰوةَ : اور منات کو الثَّالِثَةَ : تیسری الْاُخْرٰى : ایک اور
اور منات تیسرے پچھلے کو1
1  یعنی اس لا محدود عظمت و جلال والے خدا کے مقابلہ میں ان حقیر و ذلیل چیزوں کا نام لینے سے شرم آنی چاہیے۔ (تنبیہ) " لات " و " عزیٰ "، " منات " ان کے بتوں اور دیویوں کے نام ہیں۔ ان میں " لات " طائف والوں کے ہاں بہت معظم تھا۔ " منات " اوس و خزرج اور خزاعہ کے ہاں۔ اور " عزیٰ " کو قریش اور بنی کنانہ وغیرہ ان دونوں سے بڑا سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اول " عزیٰ " جو مکہ کے قریب نخلہ میں تھا۔ پھر " لات " جو طائف میں تھا۔ پھر سب سے پیچھے تیسرے درجہ میں " منات " جو مکہ سے بہت دور مدینہ کے نزدیک واقع تھا۔ علامہ یاقوت نے معجم البلدان میں یہ ترتیب نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ قریش کعبہ کا طواف کرتے ہوئے یہ الفاظ کہتے تھے۔ " واللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری ھوءلاء الغرانیق العلی وان شفا عتھن لترتجی۔ " کتب تفسیر میں اس موقع پر ایک قصہ نقل کیا گیا ہے جو جمہور محدثین کے اصول پر درجہ صحت کو نہیں پہنچتا۔ اگر فی الواقع اس کی کوئی اصل ہے تو شاید یہ ہی ہوگی کہ آپ ﷺ نے مسلمانوں اور کافروں کے مخلوط مجمع میں یہ سورت پڑھی۔ کفار کی عادت تھی کہ لوگوں کو قرآن سننے نہ دیں اور بیچ میں گڑ بڑ مچا دیں۔ کما قال تعالیٰ (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ ) 41 ۔ فصلت :26) جب یہ آیت پڑھی تو کسی کافر شیطان نے آپ ﷺ کی آواز میں آواز ملا کر آپ ﷺ ہی کے لب و لہجہ سے وہ الفاظ کہہ دیے ہوں گے جو ان کی زبانوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ " تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الُعلیٰ " آگے تعبیر و ادا میں تصرف ہوتے ہوتے کچھ کا کچھ بن گیا۔ ورنہ ظاہر ہے نبی کی زبان پر شیطان کو ایسا تسلط کب حاصل ہوسکتا ہے اور جس چیز کا ابطال آگے کیا جا رہا ہے اس کی مدح سرائی کے کیا معنی۔
Top