Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 6
یُجَادِلُوْنَكَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ كَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَؕ
يُجَادِلُوْنَكَ : وہ آپ سے جھگڑتے تھے فِي : میں الْحَقِّ : حق بَعْدَ : بعد مَا : جبکہ تَبَيَّنَ : وہ ظاہر ہوچکا كَاَنَّمَا : گویا کہ وہ يُسَاقُوْنَ : ہانکے جا رہے ہیں اِلَى : طرف الْمَوْتِ : موت وَهُمْ : اور وہ يَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے ہیں
وہ تجھ سے جھگڑتے تھے حق بات میں اس کے ظاہر ہو چکنے کے بعد گویا وہ ہانکے جاتے ہیں موت کی طرف آنکھوں دیکھتے2
2 یعنی سوچو کہ اس جنگ (بدر) میں شروع سے آخر تک کس طرح حق تعالیٰ کی تحریک و تائید اور امداد اور توفیق مسلمانوں کے حق میں کارفرما رہی۔ خدا ہی تھا جو نصرت دین اسلام کے حق (سچے) وعدے کر کے اپنے نبی کو ایک امر حق یعنی کفار کے ساتھ جہاد کرانے کے لیے مدینہ سے باہر بدر کے میدان میں اس وقت لے آیا جبکہ ایک جماعت مسلمانوں کی لشکر قریش سے نبرد آزمائی کرنے پر راضی نہ تھی۔ یہ لوگ ایسی سچی اور طے شدہ چیز میں پس و پیش کر رہے اور حجتیں نکال رہے تھے جس کی نسبت بذریعہ پیغمبر انہیں ظاہر ہوچکا تھا وہ یقیناً خدا کی فرمائی ہوئی اٹل بات ہے (یعنی اسلام و پیران اسلام کا بذریعہ جہاد غالب و منصور ہونا) ابو جہل کے لشکر سے مقابلہ کرنا ان کو اس قدر شاق اور گراں تھا جیسے کسی شخص کو آنکھوں دیکھتے موت کے منہ میں جانا مشکل ہے۔ تاہم خدا اپنی توفیق سے ان کو میدان جنگ میں لے گیا اور اپنی امداد سے مظفر و منصور واپس لایا۔ پس جیسے خدا ہی کی مدد سے ازل اول تا آخر یہ مہم سر ہوئی، مال غنیمت بھی اس کا سمجھنا چاہیے وہ اپنے پیغمبر کے ذریعہ سے جہاں بتلائے وہاں خرچ کرو۔ (تنبیہ) کَمَا اَخْرَجَکَ الخ کے کاف، کو میں نے اپنی تقریر میں صرف تشبیہ کے لیے نہیں لیا، بلکہ ابو حیان کی تحقیق کے موافق معنی تعلیل پر مشتمل رکھا ہے جیسے واذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَأکُمْ میں علماء نے تصریح کی ہے اور اخرجک ربک من بیتک الیٰ آخر الآیات کے مضمون کو میں نے اَ لْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ کا ایک سبب قرار دیا ہے۔ ابو حیان کی طرح " اعزک اللہ " وغیرہ مقدر نہیں مانا۔ نیز تقریر آیت میں صاحب " روح المعانی " کی تصریح کے موافق اشارہ کردیا ہے کہ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ منم بَیْتِکَ میں صرف آن خروج من البیت مراد نہیں بلکہ خروج من البیت سے دخول فی الجہاد تک کا ممتد اور وسیع زمانہ مراد ہے جس میں (وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ۝ ۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ ) 8 ۔ الانفال :5-6) وغیرہ سب احوال کا وقوع ہوا۔ ایک فریق کی کراہیت تو عین خروج من المدینہ ہی کے وقت ظاہر ہوگی جسے ہم صحیح مسلم اور طبری کے حوالے سے سورة الانفال کے پہلے فائدہ میں بیان کرچکے ہیں اور مجادلہ کی صورت غالبًا آگے چل کر لشکر کی اطلاع ملنے پر مقام صفراء میں پیش آئی۔ اس کے سمجھ لینے سے بعض مبطلین کے مغالطات کا استیصال ہوجائے گا۔
Top