Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 6
یُجَادِلُوْنَكَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ كَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَؕ
يُجَادِلُوْنَكَ : وہ آپ سے جھگڑتے تھے فِي : میں الْحَقِّ : حق بَعْدَ : بعد مَا : جبکہ تَبَيَّنَ : وہ ظاہر ہوچکا كَاَنَّمَا : گویا کہ وہ يُسَاقُوْنَ : ہانکے جا رہے ہیں اِلَى : طرف الْمَوْتِ : موت وَهُمْ : اور وہ يَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے ہیں
وہ تم سے امر حق میں جھگڑتے رہے باوجودیکہ حق ان پر اچھی طرح واضح تھا، مولعم ہوتا تھا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور اس کو دیکھ رہے ہیں
يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ۔ کمزوروں کی کمزوری پر گرفت : لفظ مجادلۃ کے معنی یہاں، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں اس کی تحقیق بیان کرچکے ہیں، باصرار و بلطائف الحیل مخاطب سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرنے کے ہیں۔ اب یہ وضاحت ہو رہی ہے اس بات کی کہ جب ان کو خطرہ لاحق ہوگا کہ مقابلہ فوج سے درپیش ہے تو اس سے فرار کی انہوں نے کیا راہ نکالنی چاہی۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو باصرار اور بلطائف الحیل اپنی چرب زبانی سے اس رخ پر لانا چاہا کہ آپ تجارتی قافلے کا قصد کریں۔ بظاہر تو انہوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہوگی کہ یہ مشورہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی میں دے رہے ہیں کہ قافلہ کو لوٹ لینے سے قریش کی کمر اقتصادی اعتبار سے ٹوٹ جائے گی اس لیے کہ ان کے سرمایہ کا بڑا حصہ اس قافلے کے ساتھ ہے جس سے مسلمانوں کی موجودہ کمزور مالی حالت کو درست کرنے میں بڑی مدد ملے گی لیکن اس مشورہ کی تہ میں ان کا وہی خوف بیٹھا ہوا تھا جس کو قرآن نے بےنقاب کردیا ہے کہ گویا وہ موت کی طرف ہنکائے جا رہے ہوں اور وہ موت کو سامنے دیکھ رہے ہو۔ اس مشورے کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ ان پر آنحضرت ﷺ کا منشا، جیسا کہ قرآن کے کے الفاط بعد ماتبین سے ثابت ہے، اچھی طرح واضح تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی بات منوانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے۔ ہرچند آنحضرت ﷺ نے اس مرحلے تک، جیسا کہ آگے والی آیت میں اشارہ آ رہا ہے، بعض خاص اسباب سے، جن کی تفصیل آگے آئے گی، اپنا منشا واضح الفاظ میں ظاہر نہیں فرمایا تھا لیکن یہ لوگ اتنے غبی نہیں تھے کہ یہ نہ سمجھ سکیں کہ جب ایک طرف تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف سے فوج آرہی ہے تو آنحضرت کا یہ نکلنا کس سے نمٹنے کے لیے ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ دل کے بودے ضرور تھے لیکن عقل کے اتنے غریب نہیں تھے کہ آنحضرت ﷺ کے مزاج، اسلام کے مقصد احقاق حق کے تقاضوں سے اتنے نابلد ہوں کہ یہ موٹی سی بات بھی نہ سمجھ سکیں کہ کسی تجارتی قافلہ کو تاخت و تاراج کرنا ایسا کیا کام ہوسکتا ہے جس کے لیے خدا کا رسول اپنے جاں نثاروں کے ساتھ یوں سربکف ہو کر نکلے ! چناچہ آگے تفصیل آئے گی کہ نہ مہاجرین کے لیڈروں کو آنحضرت کا منشا سمجھنے میں کوئی اشتباہ پیش آیا نہ انصار کے جان نثاروں کو۔ سب نے پہلے ہی مرحلے میں تاڑ لیا کہ حضور کا منشا کیا ہے اور اس منشا کی تکمیل کے لیے وہ سربکف ہوگئے۔ صرف ایک گروہ موت کے ڈر سے آخر وقت تک سخن سازی کرتا رہا اس وجہ سے اس کا رویہ قرآن میں زیر بحث آیا تاکہ آئندہ کے مراحل میں مسلمان ان داخل فتنوں سے ہوشیار رہیں۔
Top