Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 6
یُجَادِلُوْنَكَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ كَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَؕ
يُجَادِلُوْنَكَ : وہ آپ سے جھگڑتے تھے فِي : میں الْحَقِّ : حق بَعْدَ : بعد مَا : جبکہ تَبَيَّنَ : وہ ظاہر ہوچکا كَاَنَّمَا : گویا کہ وہ يُسَاقُوْنَ : ہانکے جا رہے ہیں اِلَى : طرف الْمَوْتِ : موت وَهُمْ : اور وہ يَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے ہیں
وہ آپ سے اس حقیقت کے باب میں بعد اس کے کہ اس کا ظہور ہوچکا تھا اس طرح ردوقدح کررہے تھے کہ گویا وہ موت کی طرف ہنکائے جارے ہوں اور وہ دیکھ رہے ہوں،12 ۔
12 ۔ یہ تفصیل بیان ہوئی اسی کراہت طبعی لکارھون کی (ملاحظہ ہوں اوپر کے دونوں حاشیے) ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے الفاظ میں مدینہ سے چلتے وقت مسلمانوں کو یقین نہ تھا کہ آیا وہ قافلہ سے ملیں گے یا امدادی دستہ سے مڈبھیڑ ہوگی، دونوں امکانات تھے چونکہ قریشی قافلہ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل اور پانچ لاکھ درہم کا اسباب لارہا تھا، اس لیے مدینہ والوں کو یقین تھا کہ اس کی مدد اور حفاظت کے لیے قریش اپنے تمام حلیفوں کی مدد سے ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ اور کشمکش کریں گے۔ مدینہ سے زیادہ دور مکہ کی سمت جانا بہتوں کے لیے موت کا منہ میں جانا معلوم ہوتا تھا۔ (کتاب مذکور) ۔ صفحہ 17 ۔ 18 ۔ (آیت) ” یجادلونک “۔ جدال محاورۂ قرآنی میں ہمیشہ موقع ذم پر نہیں آتا، بلکہ اس کے معنی کہیں صرف زور دے کر کہنے کے آتے ہیں۔ اور اس لفظ کا استعمال کہیں پیغمبران معصوم کے حق میں آیا ہے۔ مثلا حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے لیے (آیت) ” یجادلنا فی قوم لوط۔۔۔ فی الحق “۔ یعنی لشکر مکہ سے قتال کے بارے میں درآنحالیکہ وہ صرف قافلہ پر حملہ کے خیال سے کر آئے تھے والحق الذی جادلوا فیہ رسول اللہ ﷺ تلقی النفیر (کبیر) (آیت) ” بعد ماتبین “۔ یعنی بعد اس کے کہ اس عمل کا خیر ہونا انہیں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے معلوم ہوچکا تھا۔ اے بعد ماتبین لھم انک لا تامر بشیء الا باذن اللہ (قرطبی)
Top