مسند امام احمد - حدیث ابوبرزہ اسلمی (رض) کی احادیث - حدیث نمبر 3802
حدیث نمبر: 1629
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَهْلُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ وَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ فَسَأَلَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ لَهُمَا بِمَا سَأَلَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ مُعَاوِيَةَ فَكَتَبَ لَهُمَا بِمَا سَأَلَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا الْأَقْرَعُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ فَلَفَّهُ فِي عِمَامَتِهِ وَانْطَلَقَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا عُيَيْنَةُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ وَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏أَتُرَانِي حَامِلًا إِلَى قَوْمِي كِتَابًا لَا أَدْرِي مَا فِيهِ كَصَحِيفَةِ الْمُتَلَمِّسِ ؟ فَأَخْبَرَ مُعَاوِيَةُ بِقَوْلِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ فَإِنَّمَا يَسْتَكْثِرُ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:‏‏‏‏ مِنْ جَمْرِ جَهَنَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يُغْنِيهِ ؟ وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:‏‏‏‏ وَمَا الْغِنَى الَّذِي لَا تَنْبَغِي مَعَهُ الْمَسْأَلَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَدْرُ مَا يُغَدِّيهِ وَيُعَشِّيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:‏‏‏‏ أَنْ يَكُونَ لَهُ شِبْعُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ أَوْ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ حَدَّثَنَا بِهِ مُخْتَصَرًا عَلَى هَذِهِ الْأَلْفَاظِ الَّتِي ذَكَرْتُ.
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
ابوکبشہ سلولی کہتے ہیں ہم سے سہل بن حنظلیہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس آئے، انہوں نے آپ سے مانگا، آپ نے انہیں ان کی مانگی ہوئی چیز دینے کا حکم دیا اور معاویہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ ان دونوں کے لیے خط لکھ دیں جو انہوں نے مانگا ہے، اقرع نے یہ خط لے کر اسے اپنے عمامے میں لپیٹ لیا اور چلے گئے لیکن عیینہ خط لے کر نبی اکرم کے پاس آئے اور کہنے لگے: محمد! کیا آپ چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کے پاس ایسا خط لے کر جاؤں جو متلمس ١ ؎ کے صحیفہ کی طرح ہو، جس کا مضمون مجھے معلوم نہ ہو؟ معاویہ نے ان کی یہ بات رسول اللہ سے بیان کی، رسول اللہ نے فرمایا: جو سوال کرے اس حال میں کہ اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے سوال سے بےنیاز کردیتی ہو تو وہ جہنم کی آگ زیادہ کرنا چاہ رہا ہے ۔ (ایک دوسرے مقام پر نفیلی نے جہنم کی آگ کے بجائے جہنم کا انگارہ کہا ہے) ۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس قدر مال آدمی کو غنی کردیتا ہے؟ (نفیلی نے ایک دوسرے مقام پر کہا: غنی کیا ہے، جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہیئے؟ ) آپ نے فرمایا: اتنی مقدار جسے وہ صبح و شام کھا سکے ۔ ایک دوسری جگہ میں نفیلی نے کہا: اس کے پاس ایک دن اور ایک رات یا ایک رات اور ایک دن کا کھانا ہو، نفیلی نے اسے مختصراً ہم سے انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کیا جنہیں میں نے ذکر کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف: ٤٦٥٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٨٠، ١٨١) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: متلمس ایک شاعر گزرا ہے، اس نے بادشاہ عمرو بن ہند کی ہجو کی تھی، بادشاہ نے کمال ہوشیاری سے اپنے عامل کے نام خط لکھ کر اس کو دیا اور کہا کہ تم اس لفافے کو لے کر فلاں عامل کے پاس جاؤ، وہ تمہیں انعام سے نوازے گا، خط میں ہجو کے جرم میں اسے قتل کردینے کا حکم تھا، راستہ میں متلمس کو شبہہ ہوا، اس نے لفافہ پھاڑ کر خط پڑھا تو اس میں اس کے قتل کا حکم تھا، چناچہ اس نے خط پھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی جان بچا لی۔
Top