مسند امام احمد - حضرت سمرہ بن جندب (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 19224
حدیث نمبر: 2496
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَعْنَبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلًا مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ إِلَّا نُصِبَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ هَذَا قَدْ خَلَفَكَ فِي أَهْلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِهِ مَا شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا ظَنُّكُمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ كَانَ قَعْنَبٌ رَجُلًا صَالِحًا وَكَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى أَرَادَ قَعْنَبًا عَلَى الْقَضَاءِ فَأَبَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أُرِيدُ الْحَاجَةَ بِدِرْهَمٍ فَأَسْتَعِينُ عَلَيْهَا بِرَجُلٍ قَالَ:‏‏‏‏ وَأَيُّنَا لَا يَسْتَعِينُ فِي حَاجَتِهِ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْرِجُونِي حَتَّى أَنْظُرَ فَأُخْرِجَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَارَى قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا هُوَ مُتَوَارٍ إِذْ وَقَعَ عَلَيْهِ الْبَيْتُ فَمَاتَ.
جہاد کرنے والوں کی عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے؟
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت ہے، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھربار کی خدمت میں رہے، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا: اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے ، اس کے بعد رسول اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: پھر تم کیا سمجھتے ہو ١ ؎؟ ابوداؤد کہتے ہیں: قعنب ایک نیک آدمی تھے، ابن ابی لیلیٰ نے قعنب کو قاضی بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا، اور کہا کہ میں ایک درہم میں اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں کسی آدمی کی مدد لے سکوں، پھر کہا: کون ہے جو اپنی ضرورت کے لیے کسی سے مدد نہیں لیتا، پھر عرض کیا: تم لوگ مجھے نکال دو یہاں تک کہ میں دیکھوں (کہ کیسے میری ضرورت پوری ہوتی ہے) تو انہیں نکال دیا گیا، پھر وہ (ایک مکان میں) چھپ گئے، سفیان کہتے ہیں: اسی دوران کہ وہ چھپے ہوئے تھے وہ مکان ان پر گرپڑا اور وہ مرگئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ٣٩ (١٨٩٧)، سنن النسائی/الجھاد ٤٧ (٣١٩١)، (تحفة الأشراف: ١٩٣٣)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی نیکیاں لینے والے کی رغبت اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ لینے کی اس کی چاہت کا تم کیا اندازہ کرسکتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی نیکی باقی ہی نہیں رہ جائے گی۔
Top