مسند امام احمد - ابوسلمہ انصاری (رض) کی حدیثیں - حدیث نمبر 14238
حدیث نمبر: 2752
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَغَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَلَى إِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَتَلَ رَاعِيَهَا فَخَرَجَ يَطْرُدُهَا هُوَ وَأُنَاسٌ مَعَهُ فِي خَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ وَجْهِي قِبَلَ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَادَيْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ:‏‏‏‏ يَا صَبَاحَاهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ فَجَعَلْتُ أَرْمِي وَأَعْقِرُهُمْ فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ، ‏‏‏‏‏‏جَلَسْتُ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا جَعَلْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي، ‏‏‏‏‏‏وَحَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ رُمْحًا وَثَلَاثِينَ بُرْدَةً يَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَاهُمْ عُيَيْنَةُ مَدَدًا فَقَالَ:‏‏‏‏ لِيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ إِلَيَّ أَرْبَعَةٌ مِنْهُمْ فَصَعِدُوا الْجَبَلَ فَلَمَّا أَسْمَعْتُهُمْ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَتَعْرِفُونِي قَالُوا:‏‏‏‏ وَمَنْ أَنْتَ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَطْلُبُنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ فَيُدْرِكُنِي وَلَا أَطْلُبُهُ فَيَفُوتُنِي فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى فَوَارِسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ أَوَّلُهُمْ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَعْطِفُ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ فَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ فَعَقَرَ بِأَبِي قَتَادَةَ وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ فَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي جَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ ذُو قَرَدٍ فَإِذَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَمْسِ مِائَةٍ فَأَعْطَانِي سَهْمَ الْفَارِسِ وَالرَّاجِلِ.
اس دستہ کا بیان جو لشکر میں آکر مل جائے
سلمہ بن الاکوع ؓ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عیینہ نے رسول اللہ کے اونٹوں کو لوٹ لیا، آپ کے چرواہے کو مار ڈالا، اور اونٹوں کو ہانکتا ہوا وہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگ جو گھوڑوں پر سوار تھے چلے، تو میں نے اپنا رخ مدینہ کی طرف کیا، اور تین بار پکار کر کہا يا صباحاه (اے صبح کا حملہ) ١ ؎، اس کے بعد میں لٹیروں کے پیچھے چلا، ان کو تیر مارتا اور زخمی کرتا جاتا تھا، جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف پلٹتا تو میں کسی درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا، یہاں تک کہ آپ کے سارے اونٹوں کو میں نے اپنے پیچھے کردیا، انہوں نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے تیس سے زائد نیزے اور تیس سے زیادہ چادریں نیچے پھینک دیں، اتنے میں عیینہ ان کی مدد کے لیے آپہنچا، اور اس نے کہا: تم میں سے چند آدمی اس شخص کی طرف (یعنی سلمہ بن الاکوع ؓ) کی طرف جائیں (اور اسے قتل کردیں) چناچہ ان میں سے چار آدمی میری طرف آئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے، جب اتنے فاصلہ پر ہوئے کہ میں ان کو اپنی آواز پہنچا سکوں تو میں نے کہا: تم مجھے پہچانتے ہو، انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں اکوع کا بیٹا ہوں، قسم اس ذات کی جس نے محمد کو بزرگی عنایت کی، تم میں سے کوئی شخص مجھے پکڑنا چاہے تو کبھی نہ پکڑ سکے گا، اور میں جس کو چاہوں گا وہ بچ کر جا نہ سکے گا، پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے رسول اللہ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے بیچ سے چلے آ رہے ہیں، ان میں سب سے آگے اخرم اسدی ؓ تھے، وہ عبدالرحمٰن بن عیینہ فزاری سے جا ملے، عبدالرحمٰن نے ان کو دیکھا تو دونوں میں بھالا چلنے لگا، اخرم ؓ نے عبدالرحمٰن کے گھوڑے کو مار ڈالا، اور عبدالرحمٰن نے اخرم ؓ کو مار ڈالا، پھر عبدالرحمٰن اخرم ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوگیا، اس کے بعد ابوقتادہ ؓ نے عبدالرحمٰن کو جا لیا، دونوں میں بھالا چلنے لگا، تو اس نے ابوقتادہ ؓ کے گھوڑے کو مار ڈالا، اور ابوقتادہ ؓ نے عبدالرحمٰن کو مار ڈالا، پھر ابوقتادہ اخرم کے گھوڑے پر سوار ہوگئے، اس کے بعد میں رسول اللہ کے پاس آگیا، آپ ذو قرد نامی چشمے پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا تو دیکھتا ہوں کہ آپ پانچ سو آدمیوں کے ساتھ موجود ہیں، آپ نے مجھے سوار اور پیدل دونوں کا حصہ دیا ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٤٥٢٧)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجھاد ٤٥ (١٨٠٦)، مسند احمد (٤/٤٨) (حسن صحیح )
وضاحت: ١ ؎: " يا صباحاه ": یہ وہ کلمہ ہے جسے عام طور سے فریادی کہا کرتے تھے۔ ٢ ؎: تو تین حصے دیئے یا چار، انہوں نے کام ہی ایسا کیا تھا کہ جو بہت سے آدمیوں سے نہ ہوتا، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ " سواروں میں آج سب سے بہتر ابوقتادہ ؓ ہیں، اور پیادوں میں سب سے بہتر سلمہ بن الاکوع ہیں "، پھر سلمہ بن الاکوع ؓ نے کہا کہ رسول اکرم نے مجھے اپنے پیچھے عضباء نامی اونٹی پر بیٹھا لیا، اور مدینے تک اسی طرح آئے۔ آپ نے سلمہ بن الاکوع ؓ کو ایک سوار کا حصہ دیا، اور ایک پیدل کا، اس میں دو احتمال ہے: ایک یہ کہ چار حصے دیئے، دوسرے یہ کہ تین حصے دئیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوار کے حصہ میں اختلاف ہے، جن لوگوں کے نزدیک سوار کے تین حصے ہیں، ایک حصہ خود اس کا، دو حصہ اس کے گھوڑے کا، اور جن کے نزدیک سوار کے دو حصے ہیں، ایک حصہ اس کا، اور ایک حصہ اس کے گھوڑے کا۔
Top