مسند امام احمد - صحیفہ ہمام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ - حدیث نمبر 9608
حدیث نمبر: 3354
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ الْمَعْنَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ، ‏‏‏‏‏‏آخُذُ هَذِهِ مِنْ هَذِهِ وَأُعْطِي هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏رُوَيْدَكَ أَسْأَلُكَ إِنِّي أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ آخُذُ هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأُعْطِي هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسِعْرِ يَوْمِهَا مَا لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ.
چاندی کے بدلہ میں سونا لینا درست نہیں
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں میں بقیع میں اونٹ بیچا کرتا تھا، تو میں (اسے) دینار سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے درہم لیتا تھا اور درہم سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتا تھا، میں اسے اس کے بدلے میں اور اسے اس کے بدلے میں الٹ پلٹ کرلیتا دیتا تھا، پھر میں رسول اللہ کے پاس آیا، آپ ام المؤمنین حفصہ ؓ کے یہاں تھے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! ذرا سا میری عرض سن لیجئے: میں آپ سے پوچھتا ہوں: میں بقیع میں اونٹ بیچتا ہوں تو دینار سے بیچتا ہوں اور اس کے بدلے درہم لیتا ہوں اور درہم سے بیچتا ہوں اور دینار لیتا ہوں، یہ اس کے بدلے لے لیتا ہوں اور یہ اس کے بدلے، تو رسول اللہ نے فرمایا: اگر اس دن کے بھاؤ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جب تک تم دونوں جدا نہ ہوجاؤ اور حال یہ ہو کہ تم دونوں کے درمیان کوئی معاملہ باقی رہ گیا ہو ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/البیوع ٢٤ (١٢٤٢)، سنن النسائی/البیوع ٤٨ (٤٥٨٦)، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥١ (٢٢٦٢)، (تحفة الأشراف: ٧٠٥٣)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٣٣، ٥٩، ٨٩، ١٠١، ١٣٩)، سنن الدارمی/البیوع ٤٣ (٢٦٢٣) (ضعیف) (اس کے راوی سماک مختلط ہوگئے تھے اور تلقین کو قبول کرلیتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر ؓ پر ہی موقوف کردیا ہے )
وضاحت: ١ ؎: یعنی تم دونوں میں سے ایک کا دوسرے کے ذمہ کچھ باقی ہو، بلکہ جدا ہونے سے پیشتر معاملہ صاف ہوجانا چاہیے۔
Top