مسند امام احمد - حضرت علی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 1181
حدیث نمبر: 3513
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شِرْكٍ رَبْعَةٍ أَوْ حَائِطٍ لَا يَصْلُحُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ بَاعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ.
شفعہ کا بیان
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: شفعہ ١ ؎ ہر مشترک چیز میں ہے، خواہ گھر ہو یا باغ کی چہار دیواری، کسی شریک کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے شریک کو آگاہ کئے بغیر بیچ دے، اور اگر بغیر آگاہ کئے بیچ دیا تو شریک اس کے لینے کا زیادہ حقدار ہے یہاں تک کہ وہ اسے دوسرے کے ہاتھ بیچنے کی اجازت دیدے ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ٢٨ (١٦٠٨)، سنن النسائی/البیوع ٧٨ (٤٦٥٠)، (تحفة الأشراف: ٢٨٠٦)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٣١٢، ٣١٦، ٣٥٧، ٣٩٧)، سنن الدارمی/البیوع ٨٣ (٢٦٧٠) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہے قیمت ادا کر کے حاصل کرسکے۔ ٢ ؎: اگر شریک لینے کا خواہش مند ہے تو مشتری نے جتنی قیمت دی ہے، وہ قیمت دے کرلے لے، مشتری کے پیسے واپس ہوجائیں گے، لیکن اگر اس نے آگاہ کردیا، اور شریک لینے کا خواہش مند نہیں ہے، تو جس کے ہاتھ بھی چاہے بیچے حق شفغہ باقی نہ رہے گا۔
Top