مسند امام احمد - حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیثیں - حدیث نمبر 17454
حدیث نمبر: 4607
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِيعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ:‏‏‏‏ وَلا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ سورة التوبة آية 92، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمْنَا، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْنَا:‏‏‏‏ أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْعِرْبَاضُصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَائِلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ.
سنت کو لازم پکڑنے کا بیان
عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ ؓ کے پاس آئے، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ ولا على الذين إذا ما أتوک لتحملهم قلت لا أجد ما أحملکم عليه ١ ؎ نازل ہوئی، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے، آپ کی عیادت کرنے، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، اس پر عرباض ؓ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہوگئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٣، ٤٤)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اور نہ ان پر کوئی حرج ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سوار کرائیں یعنی جہاد کے لئے سواری فراہم کریں تو آپ ان سے کہتے ہیں: میرے پاس تمہارے لئے سواری نہیں (سورۃ التوبۃ: ٩٢)۔ ٢ ؎: اس حدیث میں ہر اس نئی بات سے جس کی شرع سے کوئی اصل نہ ملے منع کیا گیا ہے، اصول شریعت چار ہیں: قرآن، حدیث، اجماع صحیح اور قیاس شرعی، جو بات ان چار اصول میں نہ ہو وہ بدعت ہے، بدعت دو قسم کی ہوتی ہے: ایک بدعت شرعی دوسری بدعت لغوی، اس حدیث میں بدعت شرعی کا ہی بیان ہے، اس لئے رسول اللہ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے، بعض سلف سے جو بعض بدعات کے سلسہ میں تحسین منقول ہے وہ بدعت لغوی کے سلسلہ میں ہے ناکہ بدعت شرعی کے بارے میں؛ چناچہ عمر ؓ نے تراویح با جماعت کے لئے فرمایا: إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة یعنی اگر یہ نئی چیز ہے تو کتنی اچھی ہے، بدعت شرعیہ کی کوئی قسم بدعت حسنہ نہیں، البتہ سنت حسنہ ہی ہوتی ہے، سنة الخلفاء الراشدين سے درحقیقت رسول اللہ ہی کی سنت مراد ہے جسے رسول اکرم کے زمانہ میں کسی وجہ سے شہرت حاصل نہ ہوسکی، اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں رواج پذیر اور مشہور ہوئی اس بنا پر ان کی طرف منسوب ہوئی (أشعة اللمعات، للدهلوي) نیز اگر خلفاء راشدین کسی بات پر متفق ہوں تو اس حدیث کے بموجب ان کی سنت ہمارے لئے سنت ہے۔
Top