مسند امام احمد - حضرت ابوذرغفاری (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 20473
حدیث نمبر: 4752
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏أخبرنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بِمِثْلِ هَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولَانِ لَهُ:‏‏‏‏ فَذَكَرَ قَرِيبًا مِنْ حَدِيثِ الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ وَأَمَّا الْكَافِرُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُنَافِقُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولانِ لَهُ:‏‏‏‏ زَادَ الْمُنَافِقَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَسْمَعُهَا مَنْ وَلِيَهُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ.
قبر میں سوال وجواب اور عذاب قبر کا بیان
عبدالوہاب سے اسی جیسی سند سے اس طرح کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے رشتہ دار واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے، اتنے میں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اور اس سے کہتے ہیں پھر انہوں نے پہلی حدیث کے قریب قریب بیان کیا، اور اس میں اس طرح ہے: رہے کافر اور منافق تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں راوی نے منافق کا اضافہ کیا ہے اور اس میں ہے: اسے ہر وہ شخص سنتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے، سوائے آدمی اور جن کے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (٣٢٣١)، (تحفة الأشراف: ١١٧٠) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مردہ واپس لوٹنے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کیونکہ وہ نیچے زمین میں ہے اور چلنے والے اوپر چل رہے ہوتے ہیں، ان کی بات چیت نہیں سنتا کیونکہ قبر پر آواز جانے کا کوئی ذریعہ نہیں، اس سے سماع موتیٰ پر استدلال کرنا محض غلط ہے، کیونکہ لوٹنے والوں کی بات سننے کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے، لہذا جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے، نیز حدیث میں اس خاص موقع پر مردوں کے سننے کی یہ بات آئی ہے، جیسے غزوہ بدر میں قریش کے مقتولین جو بدر کے کنویں میں ڈال دئیے گئے تھے، اور رسول اکرم نے ان کو مخاطب کیا تھا یہ بھی مخصوص صورت حال تھی، اس طرح کے واقعات سے مردوں کے عمومی طور پر سننے پر استدلال صحیح نہیں ہے، دلائل کی روشنی میں صحیح بات یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں، (ملاحظہ ہو علامہ آلوسی کی کتاب: " کیا مردے سنتے ہیں؟ " نیز مولانا عبداللہ بھاولپوری کا رسالہ " سماع موتی " )۔
Top