مشکوٰۃ المصابیح - - حدیث نمبر 4325
حدیث نمبر: 4325
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَّرَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ حَبَسَنِي، ‏‏‏‏‏‏حَدِيثٌ كَانَ يُحَدِّثُنِيهِ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ كَانَ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ فَإِذَا أَنَا بِامْرَأَةٍ تَجُرُّ شَعْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَنْتِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ أَنَا الْجَسَّاسَةُ اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْقَصْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُهُ فَإِذَا رَجُلٌ يَجُرُّ شَعْرَهُ مُسَلْسَلٌ فِي الْأَغْلَالِ يَنْزُو فِيمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا الدَّجَّالُ خَرَجَ نَبِيُّ الْأُمِّيِّينَ بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَطَاعُوهُ أَمْ عَصَوْهُ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلْ أَطَاعُوهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ.
جساسہ کے بیان میں
فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک رات عشاء پڑھنے میں دیر کی، پھر نکلے تو فرمایا: مجھے ایک بات نے روک لیا، جسے تمیم داری ایک آدمی کے متعلق بیان کر رہے تھے، تو میں سمندر کے جزیروں میں سے ایک جزیرے میں تھا، تمیم کہتے ہیں کہ ناگاہ میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے بال کھینچ رہی ہے، تو میں نے پوچھا: تم کون ہو؟ وہ بولی: میں جساسہ ١ ؎ ہوں، تم اس محل کی طرف جاؤ، تو میں اس محل میں آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک شخص ہے جو اپنے بال کھینچ رہا ہے، وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے، اور آسمان و زمین کے درمیان میں اچھلتا ہے، میں نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ تو اس نے کہا: میں دجال ہوں، کیا امیوں کے نبی کا ظہور ہوگیا؟ میں نے کہا: ہاں (وہ ظاہر ہوچکے ہیں) اس نے پوچھا: لوگوں نے ان کی اطاعت کی ہے یا نافرمانی؟ میں نے کہا: نہیں، بلکہ لوگوں نے ان کی اطاعت کی ہے، تو اس نے کہا: یہ بہتر ہے ان کے لیے ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٨٠٣٩) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جساسہ ایک عورت ہے اور اس کے بعد والی روایت میں ہے کہ وہ ایک دابہ ہے بظاہر دونوں روایتیں متعارض ہیں اس تعارض کو حسب ذیل طریقے سے دفع کیا جاتا ہے: ١۔ ہوسکتا ہے کہ دجال کے پاس دو جساسہ ہوں ایک دابہ ہو اور دوسری عورت ہو، ٢۔ یا وہ شیطانہ ہو جو کبھی دابہ کی شکل میں ظاہر ہوتی رہی ہو اور کبھی عورت کی شکل میں کیونکہ شیطان جو شکل چاہے اپنا سکتا ہے، ٣۔ یا اسے مجازاً دابہ کہا گیا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول وما من دابّ ۃ فی الارض إلا علی اللہ رزقھا میں ہے، اگلی روایت کے الفاظ فرقنا منھا ان تکون شیطان ۃ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
Top