مسند امام احمد - - حدیث نمبر 3055
حدیث نمبر: 3055
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَقِيتُ بِلَالًا مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَلَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي كَيْفَ كَانَتْ نَفَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا كَانَ لَهُ شَيْءٌ كُنْتُ أَنَا الَّذِي أَلِي ذَلِكَ مِنْهُ مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَ وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ الإِنْسَانُ مُسْلِمًا فَرَآهُ عَارِيًا يَأْمُرُنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِي لَهُ الْبُرْدَةَ فَأَكْسُوهُ وَأُطْعِمُهُ حَتَّى اعْتَرَضَنِي رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا بِلَالُ إِنَّ عِنْدِي سَعَةً فَلَا تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا مِنِّي فَفَعَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَنْ كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ قُمْتُ لِأُؤَذِّنَ بِالصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا الْمُشْرِكُ قَدْ أَقْبَلَ فِي عِصَابَةٍ مِنَ التُّجَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَنْ رَآنِي قَالَ:‏‏‏‏ يَا حَبَشِيُّ قُلْتُ يَا لَبَّاهُ فَتَجَهَّمَنِي، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِي قَوْلًا غَلِيظًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِي:‏‏‏‏ أَتَدْرِي كَمْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الشَّهْرِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ قَرِيبٌ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ أَرْبَعٌ فَآخُذُكَ بِالَّذِي عَلَيْكَ فَأَرُدُّكَ تَرْعَى الْغَنَمَ كَمَا كُنْتَ قَبْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ فِي نَفْسِي مَا يَأْخُذُ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الْعَتَمَةَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ الْمُشْرِكَ الَّذِي كُنْتُ أَتَدَيَّنُ مِنْهُ قَالَ لِي:‏‏‏‏ كَذَا وَكَذَا وَلَيْسَ عِنْدَكَ مَا تَقْضِي عَنِّي وَلَا عِنْدِي وَهُوَ فَاضِحِي فَأْذَنْ لِي أَنْ آبَقَ إِلَى بَعْضِ هَؤُلَاءِ الأَحْيَاءِ الَّذِينَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّى يَرْزُقَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَقْضِي عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا أَتَيْتُ مَنْزِلِي فَجَعَلْتُ سَيْفِي وَجِرَابِي وَنَعْلِي وَمِجَنِّي عِنْدَ رَأْسِي حَتَّى إِذَا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الأَوَّلِ أَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا إِنْسَانٌ يَسْعَى يَدْعُو:‏‏‏‏ يَا بِلَالُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ فَإِذَا أَرْبَعُ رَكَائِبَ مُنَاخَاتٌ عَلَيْهِنَّ أَحْمَالُهُنَّ فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَبْشِرْ فَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِقَضَائِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ تَرَ الرَّكَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الأَرْبَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ لَكَ رِقَابَهُنَّ وَمَا عَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ كِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَيَّ عَظِيمُ فَدَكَ فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلْتُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَ مَا قِبَلَكَ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ قَدْ قَضَى اللَّهُ كُلَّ شَيْءٍ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَبْقَ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفَضَلَ شَيْءٍ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ قَالَ:‏‏‏‏ انْظُرْ أَنْ تُرِيحَنِي مِنْهُ فَإِنِّي لَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَهْلِي حَتَّى تُرِيحَنِي مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَتَمَةَ دَعَانِي فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ هُوَ مَعِي لَمْ يَأْتِنَا أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَقَصَّ الْحَدِيثَ حَتَّى إِذَا صَلَّى الْعَتَمَةَ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ دَعَانِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ قَدْ أَرَاحَكَ اللَّهُ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ شَفَقًا مِنْ أَنْ يُدْرِكَهُ الْمَوْتُ وَعِنْدَهُ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَزْوَاجَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ حَتَّى أَتَى مَبِيتَهُ فَهَذَا الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ.
امام کے لئے مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا
عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال ؓ سے حلب ١ ؎ میں ملاقات کی، اور کہا: بلال! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ کا خرچ کیسے چلتا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خریدتا، اسے پہننے کے لیے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا، یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا: بلال! میرے پاس وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) آپ کسی اور سے قرض نہ لیں، مجھ سے لے لیا کریں، میں ایسا ہی کرنے لگا یعنی (اس سے لینے لگا) پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے وضو کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوا کہ اچانک وہی مشرک سوداگروں کی ایک جماعت لیے ہوئے آپہنچا جب اس نے مجھے دیکھا تو بولا: اے حبشی! میں نے کہا: يا لباه ٢ ؎ حاضر ہوں، تو وہ ترش روئی سے پیش آیا اور سخت سست کہنے لگا اور بولا: تو جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟ میں نے کہا: قریب ہے، اس نے کہا: مہینہ پورا ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں ٣ ؎ میں اپنا قرض تجھ سے لے کر چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی کر دوں گا جیسے تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا، مجھے اس کی باتوں کا ایسے ہی سخت رنج و ملال ہوا جیسے ایسے موقع پر لوگوں کو ہوا کرتا ہے، جب میں عشاء پڑھ چکا تو رسول اللہ اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے جا چکے تھے (میں بھی وہاں گیا) اور شرف یابی کی اجازت چاہی تو آپ نے مجھے اجازت دے دی، میں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے اور نہ آپ کے پاس مال ہے جس سے میرے قرض کی ادائیگی ہوجائے اور نہ ہی میرے پاس ہے (اگر ادا نہ کیا) تو وہ مجھے اور بھی ذلیل و رسوا کرے گا، تو آپ مجھے اجازت دے دیجئیے کہ میں بھاگ کر ان قوموں میں سے کسی قوم کے پاس جو مسلمان ہوچکے ہیں اس وقت تک کے لیے چلا جاؤں جب تک کہ اللہ اپنے رسول کو اتنا مال عطا نہ کر دے جس سے میرا قرض ادا ہوجائے، یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے گھر چلا آیا، اور اپنی تلوار، موزہ جوتا اور ڈھال سرہانے رکھ کر سو گیا، صبح ہی صبح پو پھٹتے ہی یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک شخص بھاگا بھاگا پکارتا ہوا آیا کہ اے بلال (تمہیں رسول اللہ یاد کر رہے ہیں) چل کر آپ کی بات سن لو، تو میں چل پڑا، آپ کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار لدے ہوئے جانور بیٹھے ہیں، آپ سے اجازت طلب کی تو رسول نے مجھ سے فرمایا: بلال! خوش ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری ضرورت پوری کردی، کیا تم نے چاروں بیٹھی ہوئی سواریاں نہیں دیکھیں؟ ، میں نے کہا: ہاں دیکھ لی ہیں، آپ نے فرمایا: جاؤ وہ جانور بھی لے لو اور جو ان پر لدا ہوا ہے وہ بھی ان پر کپڑا اور کھانے کا سامان ہے، فدک کے رئیس نے مجھے ہدیہ میں بھیجا ہے، ان سب کو اپنی تحویل میں لے لو، اور ان سے اپنا قرض ادا کر دو ، تو میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ بلال ؓ کہتے ہیں: پھر میں مسجد میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ مسجد میں تشریف فرما ہیں، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے پوچھا: جو مال تمہیں ملا اس کا کیا ہوا؟ ، میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے سارے قرضے ادا کردیئے اب کوئی قرضہ باقی نہ رہا، آپ نے فرمایا: کچھ مال بچا بھی ہے؟ ، میں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: جاؤ جو بچا ہے اسے اللہ کی راہ میں صرف کر کے مجھے آرام دو کیونکہ جب تک یہ مال صرف نہ ہوجائے گا میں اپنی ازواج (مطہرات) میں سے کسی کے پاس نہ جاؤں گا ، پھر جب رسول اللہ عشاء سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا: کیا ہوا وہ مال جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟ میں نے کہا: وہ میرے پاس موجود ہے، کوئی ہمارے پاس آیا ہی نہیں کہ میں اسے دے دوں تو رسول نے رات مسجد ہی میں گزاری۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی (اس میں ہے) یہاں تک کہ جب آپ عشاء کی نماز پڑھ چکے یعنی دوسرے دن تو آپ نے مجھے بلایا اور پوچھا: وہ مال کیا ہوا جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟ ، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کو اس سے بےنیاز و بےفکر کردیا (یعنی وہ میں نے ایک ضرورت مند کو دے دیا) یہ سن کر آپ نے اللہ اکبر کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا بیان کی اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو موت نہ آجاتی اور یہ مال آپ کے پاس باقی رہتا، پھر میں آپ کے پیچھے پیچھے چلا، آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے اور ایک ایک کو سلام کیا، پھر آپ وہاں تشریف لے گئے جہاں رات گزارنی تھی، (اے عبداللہ ہوزنی! ) یہ ہے تمہارے سوال کا جواب۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ٢٠٤٠) (صحیح الإسناد )
وضاحت: ١ ؎: شام کے ایک شہر کا نام ہے۔ ٢ ؎: یہ کلمہ عربی میں جی، یا حاضر ہوں کی جگہ بولا جاتا ہے۔ ٣ ؎: قرض واپسی کی مدت میں ابھی چار دن باقی تھے اس لئے اسے لڑنے جھگڑنے اور بولنے کا حق نہیں تھا، ادائیگی کا وقت گزر جانے کے بعد اسے بولنے اور جھگڑنے کا حق تھا۔ مگر تھا تو کافر مسلمانوں کا دشمن، قرض کا بہانہ کر کے لڑ پڑا۔
Top