مسند امام احمد - حضرت علی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 1150
حدیث نمبر: 2027
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ أَبَى أَنْ يَدْخُلَ الْبَيْتَ وَفِيهِ الْآلِهَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأُخْرِجَ صُورَةُ إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْمَاعِيلَ وَفِي أَيْدِيهِمَا الْأَزْلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمُوا مَا اسْتَقْسَمَا بِهَا قَطُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ فَكَبَّرَ فِي نَوَاحِيهِ وَفِي زَوَايَاهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ.
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم جب مکہ آئے تو آپ نے کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کیا کیونکہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے، آپ نے حکم دیا تو وہ نکال دیئے گئے، اس میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی تصویریں بھی تھیں، وہ اپنے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر لیے ہوئے تھے تو رسول اللہ نے فرمایا: اللہ انہیں ہلاک کرے، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دونوں (ابراہیم اور اسماعیل) نے کبھی بھی فال نہیں نکالا ، وہ کہتے ہیں: پھر آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے گوشوں اور کونوں میں تکبیرات بلند کیں، پھر بغیر نماز پڑھے نکل آئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ٣٠ (٣٩٧)، وأحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٥١)، والحج ٥٤ (١٦٠١)، والمغازي ٤٨ (٤٢٨٨)، (تحفة الأشراف: ٥٩٩٥)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٢٩)، سنن النسائی/المناسک ١٣٠ (٢٩١٦)، مسند احمد (١/٣٣٤، ٣٦٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: فال کے ان تیروں پر " افعل "،" لا تفعل "،" لا شيء " لکھا ہوتا تھا، ان کی عادت تھی جب وہ سفر پر نکلتے تو اس کو ایک تھیلی میں ڈال کر اس میں سے ایک کو نکالتے، اگر حسن اتفاق سے اس تیر پر افعل لکھا ہوتا تو سفر پر نکلتے، اور لا تفعل لکھا ہوتا تو سفر کو ملتوی کردیتے اور اگر لا شيء لکھا رہتا تو پھر دوبارہ سب کو ڈال کر نکالتے، یہاں تک کہ افعل یا لا تفعل نکل آئے، رہی یہ بات کہ " آپ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی " تو یہ ابن عباس ؓ نے اپنے علم کی بنیاد پر کہا ہے، ترجیح بلال ؓ کے بیان کو ہے جنہوں نے قریب سے دیکھا تھا۔
Top