مسند امام احمد - - حدیث نمبر 432
حدیث نمبر: 432
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ دُحَيْمٌ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي حَسَّانُ يَعْنِي ابْنَ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْيَمَنَ رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَسَمِعْتُ تَكْبِيرَهُ مَعَ الْفَجْرِ رَجُلٌ أَجَشُّ الصَّوْتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأُلْقِيَتْ عَلَيْهِ مَحَبَّتِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَا فَارَقْتُهُ حَتَّى دَفَنْتُهُ بِالشَّامِ مَيِّتًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَى أَفْقَهِ النَّاسِ بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَلَزِمْتُهُ حَتَّى مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَيْفَ بِكُمْ إِذَا أَتَتْ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ لِغَيْرِ مِيقَاتِهَا ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ صَلِّ الصَّلَاةَ لِمِيقَاتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَاجْعَلْ صَلَاتَكَ مَعَهُمْ سُبْحَةً.
حاکم نماز دیر سے پڑھائے تو کیا کرنا چاہیے؟
عمرو بن میمون اودی کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل ؓ رسول اللہ کے قاصد بن کر ہمارے پاس یمن آئے، میں نے فجر میں ان کی تکبیر سنی، وہ ایک بھاری آواز والے آدمی تھے، مجھ کو ان سے محبت ہوگئی، میں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا یہاں تک کہ میں نے ان کو شام میں دفن کیا، پھر میں نے غور کیا کہ ان کے بعد لوگوں میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے؟ (تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ ہیں) چناچہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آیا اور ان کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا: تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حکمراں مسلط ہوں گے جو نماز کو وقت پر نہ پڑھیں گے؟ ، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! جب ایسا وقت مجھے پائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا: نماز کو اول وقت میں پڑھ لیا کرنا اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنا لینا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٩٤٨٧)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٤)، سنن النسائی/الإمامة ٢ (٧٨٠)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٠ (١٢٥٥)، مسند احمد (١/٣٧٩، ٤٥٥، ٤٥٩) (حسن صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں: ایک تو یہ کہ نماز اوّل وقت میں پڑھنا افضل ہے، دوسرے یہ کہ جماعت کے لئے اسے مؤخر کرنا جائز نہیں، تیسرے یہ کہ جو نماز پڑھ چکا ہو اس کا اسی دن اعادہ (دہرانا) جائز ہے بشرطیکہ اس اعادہ کا کوئی سبب ہو، ایک ہی نماز کو ایک ہی دن میں دوبارہ پڑھنے کی جو ممانعت آئی ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ اس کا کوئی سبب نہ ہو، چوتھے یہ کہ پہلی نماز فرض ہوگی اور دوسری جو اس نے امام کے ساتھ پڑھی ہے نفل ہوگی۔
Top