مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2428
حدیث نمبر: 457
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ /agt;، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَيْمُونَةَ مَوْلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَفْتِنَا فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتِ الْبِلَادُ إِذْ ذَاكَ حَرْبًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَأْتُوهُ وَتُصَلُّوا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَابْعَثُوا بِزَيْتٍ يُسْرَجُ فِي قَنَادِيلِهِ.
مسجد میں چراغ جلانے کا بیان
نبی اکرم کی آزاد کردہ لونڈی میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ بیت المقدس کے سلسلے میں ہمیں حکم دیجئیے تو آپ نے فرمایا: تم وہاں جاؤ اور اس میں نماز پڑھو ، اس زمانے میں ان شہروں میں لڑائی پھیلی ہوئی تھی، پھر آپ نے فرمایا: اگر تم وہاں نہ جا سکو اور نماز نہ پڑھ سکو تو تیل ہی بھیج دو کہ اس کی قندیلوں میں جلایا جاسکے ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٦ (١٤٠٧)، (تحفة الأشراف: ١٨٠٨٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/٤٦٣ ) ( ضعیف) (زیاد اور میمونہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن ابن ماجہ کی سند میں یہ واسطہ عثمان بن أبی سودة ہے، اس حدیث کی تصحیح بوصیری نے کی ہے، اور نووی نے تحسین کی ہے، البانی نے صحیح أبی داود (٦٨) میں اس کی تصحیح کی ہے، اور اخیر خبر میں نکارت کا ذکر کیا ہے، ناشر نے یہ نوٹ لگایا ہے کہ البانی صاحب نے بعد میں صحیح أبی داود سے ضعیف أبی داود میں منتقل کردیا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اس پر اپنے فیصلے کو تبدیل کریں، جبکہ آخری حدیث میں ذہبی سے نکارت کی وجہ بیان کردی ہے، کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، تو حجاز سے اس کو وہاں بھیجنے کا کیا مطلب، اور یہ کہ یہ تیل نصارے کے لئے وہ بھیجیں کہ وہ صلیب و تمثال پر اس کو جلائیں، یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے )
Top