مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 6160
حدیث نمبر: 1392
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ فَقُلْ:‏‏‏‏ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَقْبَلَ،‏‏‏‏ قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ مَا لَدَيْكَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلِّمُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْ:‏‏‏‏ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنِ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، ‏‏‏‏‏‏فَسَمَّى عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏وَطَلْحَةَ،‏‏‏‏ وَالزُّبَيْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، ‏‏‏‏‏‏وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنَ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ.
باب: نبی کریم ﷺ اور ابوبکر اور عمر ؓ کی قبروں کا بیان۔
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں عمر بن خطاب ؓ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ ؓ کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ عائشہ ؓ نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر ؓ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر ؓ واپس آئے تو عمر ؓ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر ؓ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھا کرلے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ ؓ کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا ‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ میں اس امر خلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں ‘ خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر عثمان ‘ علی ‘ طلحہ ‘ زبیر ‘ عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص ؓ کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو ‘ اللہ عزوجل کی طرف سے ‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ عمر ؓ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاو رکھے ‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاو رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی۔ (میری وصیت ہے کہ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے (یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کر لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
Top