مشکوٰۃ المصابیح - لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان - حدیث نمبر 2321
حدیث نمبر: 4230
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ، ‏‏‏‏‏‏إِمَّا قَالَ:‏‏‏‏ بِضْعٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَّا قَالَ:‏‏‏‏ فِي ثَلَاثَةٍ وَخَمْسِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبْنَا سَفِينَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أُنَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ:‏‏‏‏ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذِهِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ،‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ:‏‏‏‏ كَلَّا وَاللَّهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنَّا فِي دَارِ أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ بِالْحَبَشَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَذَلِكَ فِي اللَّهِ وَفِي رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَايْمُ اللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَا أَكْذِبُ وَلَا أَزِيغُ وَلَا أَزِيدُ عَلَيْهِ.
حدیث نمبر: 4231
فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ عُمَرَ قَالَ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا قُلْتِ لَهُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ لَهُ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالًا يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ جب ہمیں نبی کریم کی ہجرت کے متعلق خبر ملی تو ہم یمن میں تھے۔ اس لیے ہم بھی نبی کریم کی خدمت میں ہجرت کی نیت سے نکل پڑے۔ میں اور میرے دو بھائی ‘ میں دونوں سے چھوٹا تھا۔ میرے ایک بھائی کا نام ابوبردہ ؓ تھا اور دوسرے کا ابو رہم۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اوپر پچاس یا انہوں نے یوں بیان کیا کہ تریپن (53) یا باون (52) میری قوم کے لوگ ساتھ تھے۔ ہم کشتی پر سوار ہوئے لیکن ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کے ملک حبشہ میں لا ڈالا۔ وہاں ہماری ملاقات جعفر بن ابی طالب ؓ سے ہوگئی ‘ جو پہلے ہی مکہ سے ہجرت کر کے وہاں پہنچ چکے تھے۔ ہم نے وہاں انہیں کے ساتھ قیام کیا ‘ پھر ہم سب مدینہ ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں نبی کریم کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب آپ خیبر فتح کرچکے تھے۔ کچھ لوگ ہم کشتی والوں سے کہنے لگے کہ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے اور اسماء بنت عمیس ؓ جو ہمارے ساتھ مدینہ آئی تھیں ‘ ام المؤمنین حفصہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ‘ ان سے ملاقات کے لیے وہ بھی نجاشی کے ملک میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کر کے چلی گئی تھیں۔ عمر ؓ بھی حفصہ ؓ کے گھر پہنچے۔ اس وقت اسماء بنت عمیس ؓ وہیں تھیں۔ جب عمر ؓ نے انہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ یہ کون ہیں؟ ام المؤمنین ؓ نے بتایا کہ اسماء بنت عمیس۔ عمر ؓ نے اس پر کہا اچھا وہی جو حبشہ سے بحری سفر کر کے آئی ہیں۔۔ اسماء ؓ نے کہا کہ جی ہاں۔ عمر ؓ نے ان سے کہا کہ ہم تم لوگوں سے ہجرت میں آگے ہیں اس لیے رسول اللہ سے ہم تمہارے مقابلہ میں زیادہ قریب ہیں۔ اسماء ؓ اس پر بہت غصہ ہوگئیں اور کہا ہرگز نہیں: اللہ کی قسم! تم لوگ رسول اللہ کے ساتھ رہے ہو ‘ تم میں جو بھوکے ہوتے تھے اسے آپ کھانا کھلاتے تھے اور جو ناواقف ہوتے اسے آپ نصیحت و موعظت کیا کرتے تھے۔ لیکن ہم بہت دور حبشہ میں غیروں اور دشمنوں کے ملک میں رہتے تھے ‘ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے راستے ہی میں تو کیا اور اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تمہاری بات رسول اللہ سے نہ کہہ لوں۔ ہمیں اذیت دی جاتی تھی ‘ دھمکایا ڈرایا جاتا تھا۔ میں نبی کریم سے اس کا ذکر کروں گی اور آپ سے اس کے متعلق پوچھوں گی۔ اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی ‘ نہ کج روی اختیار کروں گی اور نہ کسی (خلاف واقعہ بات کا) اضافہ کروں گی۔
چناچہ جب نبی کریم تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! عمر ؓ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ نبی کریم نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے انہیں کیا جواب دیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے انہیں یہ یہ جواب دیا تھا۔ نبی کریم نے اس پر فرمایا کہ وہ تم سے زیادہ مجھ سے قریب نہیں ہیں۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو صرف ایک ہجرت حاصل ہوئی اور تم کشتی والوں نے دو ہجرتوں کا شرف حاصل کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس واقعہ کے بعد ابوموسیٰ ؓ اور تمام کشتی والے میرے پاس گروہ در گروہ آنے لگے اور مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھنے لگے۔ ان کے لیے دنیا میں نبی کریم کے ان کے متعلق اس ارشاد سے زیادہ خوش کن اور باعث فخر اور کوئی چیز نہیں تھی۔
Top