صحيح البخاری - - حدیث نمبر 5090
حدیث نمبر: 334
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ ؟ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسِ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ:‏‏‏‏ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَأَصَبْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ.
تیمم کے احکام، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ پس تم پاک مٹی سے تیمم کرو اور اس سے اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو ملو، جو تیمم کی اجازت دیتا ہے
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں مالک نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ ؓ سے، آپ نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ بعض سفر (غزوہ بنی المصطلق) میں تھے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور کہا عائشہ ؓ نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔ پھر ابوبکر صدیق ؓ تشریف لائے، رسول اللہ اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ اور تمام لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ والد ماجد ؓ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انہوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ رسول اللہ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کرسکتی تھی۔ رسول اللہ جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر ؓ نے کہا اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔
Top