مسند امام احمد - حضرت عرفجہ بن شریح (رض) کی حدیث - حدیث نمبر 415
حدیث نمبر: 2371
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْخَيْلُ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطَالَ بِهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنَّهُ انْقَطَعَ طِيَلُهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ فَهِيَ لِذَلِكَ أَجْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي رِقَابِهَا وَلَا ظُهُورِهَا فَهِيَ لِذَلِكَ سِتْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَنِوَاءً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْحُمُرِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةُ الْجَامِعَةُ الْفَاذَّةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ‏‏‏‏ 7 ‏‏‏‏ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ‏‏‏‏ 8 ‏‏‏‏ سورة الزلزلة آية 7-8.
باب: نہروں میں سے آدمی اور جانور سب پانی پی سکتے ہیں۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں ابوصالح سمان نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ نے فرمایا، گھوڑا ایک شخص کے لیے باعث ثواب ہے، دوسرے کے لیے بچاؤ ہے اور تیسرے کے لیے وبال ہے۔ جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب ہے، وہ وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ کے لیے اس کو پالے، وہ اسے کسی ہریالے میدان میں باندھے (راوی نے کہا) یا کسی باغ میں۔ تو جس قدر بھی وہ اس ہریالے میدان میں یا باغ میں چرے گا۔ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ اگر اتفاق سے اس کی رسی ٹوٹ گئی اور گھوڑا ایک یا دو مرتبہ آگے کے پاؤں اٹھا کر کو دا تو اس کے آثار قدم اور لید بھی مالک کی نیکیوں میں لکھے جائیں گے اور اگر وہ گھوڑا کسی ندی سے گزرے اور اس کا پانی پئے خواہ مالک نے اسے پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو تو بھی یہ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ تو اس نیت سے پالا جانے ولا گھوڑا انہیں وجوہ سے باعث ثواب ہے دوسرا شخص وہ ہے جو لوگوں سے بےنیاز رہنے اور ان کے سامنے دست سوال بڑھانے سے بچنے کے لیے گھوڑا پالے، پھر اس کی گردن اور اس کی پیٹھ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا اپنے مالک کے لیے پردہ ہے۔ تیسرا شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر، دکھاوے اور مسلمانوں کی دشمنی میں پالے۔ تو یہ گھوڑا اس کے لیے وبال ہے۔ رسول اللہ سے گدھوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے متعلق کوئی حکم وحی سے معلوم نہیں ہوا۔ سوا اس جامع آیت کے من يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا۔
Top