مسند امام احمد - صحیفہ ہمام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ - حدیث نمبر 1144
1- بَابُ الْكَفَالَةِ فِي الْقَرْضِ وَالدُّيُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَيْرِهَا:
وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ:‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ:‏‏‏‏ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏بَعَثَهُ مُصَدِّقًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَقَعَ رَجُلٌ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ حَمْزَةُ مِنَ الرَّجُلِ كَفِيلًا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى قَدِمَ عَلَى عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عُمَرُ قَدْ جَلَدَهُ مِائَةَ جَلْدَةٍ فَصَدَّقَهُمْ وَعَذَرَهُ بِالْجَهَالَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَشْعَثُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فِي الْمُرْتَدِّينَ:‏‏‏‏ اسْتَتِبْهُمْ وَكَفِّلْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَتَابُوا وَكَفَلَهُمْ عَشَائِرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ حَمَّادٌ:‏‏‏‏ إِذَا تَكَفَّلَ بِنَفْسٍ فَمَاتَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْحَكَمُ:‏‏‏‏ يَضْمَنُ.
حدیث نمبر: 2291
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ وَقَالَ اللَّيْثُ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأْتِنِي بِالْكَفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَدَقْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ فِي الْبَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الْتَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا فَأَخَذَ خَشَبَةً، ‏‏‏‏‏‏فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلَانًا أَلْفَ دِينَارٍ فَسَأَلَنِي كَفِيلَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، ‏‏‏‏‏‏فَرَضِيَ بِكَ وَسَأَلَنِي شَهِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا فَرَضِيَ بِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا فَرَمَى بِهَا فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ يَنْظُرُ، ‏‏‏‏‏‏لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بِالْخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَالُ فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ فَأَتَى بِالْأَلْفِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الْخَشَبَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْصَرِفْ بِالْأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا.
باب: قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں۔
باب: قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں
اور ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے محمد بن حمزہ بن عمرو الاسلمی نے اور ان سے ان کے والد (حمزہ) نے کہ عمر ؓ نے (اپنے عہد خلافت میں) انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ (جہاں وہ زکوٰۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے) ایک شخص نے اپنی بیوی کی باندی سے ہمبستری کرلی۔ حمزہ نے اس کی ایک شخص سے پہلے ضمانت لی، یہاں تک کہ وہ عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر ؓ نے اس شخص کو سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اس آدمی نے جو جرم اس پر لگا تھا اس کو قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر کیا تھا۔ عمر ؓ نے اس کو معذور رکھا تھا اور جریر اور اشعث نے عبداللہ بن مسعود سے مرتدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے توبہ کرائیے اور ان کی ضمانت طلب کیجئے (کہ دوبارہ مرتد نہ ہوں گے) چناچہ انہوں نے توبہ کرلی اور ضمانت خود انہیں کے قبیلہ والوں نے دے دی۔ حماد نے کہا جس کا حاضر ضامن ہو اگر وہ مرجائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہ ہوگا۔ لیکن حکم نے کہا کہ ذمہ کا مال دینا پڑے گا۔
ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چناچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کر کے کسی سواری (کشتی وغیرہ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کر کے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ (اور اس کا قرض ادا کر دے) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک (اس مضمون کا) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جا رہے ہیں) اور اس کا منہ بند کردیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہوگیا اور (تو جانتا ہے کہ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک (مدت مقررہ میں) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں (کہ تو اس تک پہنچا دے) چناچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب (قرض دار) واپس ہوچکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جاسکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ (کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور (یہ خیال کر کے کہ شاید وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کردیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کردیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چناچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
Top