صحيح البخاری - لباس کا بیان - حدیث نمبر 5843
حدیث نمبر: 5843
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبِثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلْتُ أَهَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَ يَوْمًا مَنْزِلًا فَدَخَلَ الْأَرَاكَ فَلَمَّا خَرَجَ سَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَا نَعُدُّ النِّسَاءَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ وَذَكَرَهُنَّ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏رَأَيْنَا لَهُنَّ بِذَلِكَ عَلَيْنَا حَقًّا مِنْ غَيْرِ أَنْ نُدْخِلَهُنَّ فِي شَيْءٍ مِنْ أُمُورِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ امْرَأَتِي كَلَامٌ فَأَغْلَظَتْ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ وَإِنَّكِ لَهُنَاكِ قَالَتْ:‏‏‏‏ تَقُولُ:‏‏‏‏ هَذَا لِي وَابْنَتُكَ تُؤْذِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ حَفْصَةَ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَهَا إِنِّي أُحَذِّرُكِ أَنْ تَعْصِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهَا فِي أَذَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَعْجَبُ مِنْكَ يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ دَخَلْتَ فِي أُمُورِنَا فَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَرَدَّدَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِذَا غَابَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدْتُهُ أَتَيْتُهُ بِمَا يَكُونُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا غِبْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدَ أَتَانِي بِمَا يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ مَنْ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ اسْتَقَامَ لَهُ فَلَمْ يَبْقَ إِلَّا مَلِكُ غَسَّانَ بِالشَّأْمِ، ‏‏‏‏‏‏كُنَّا نَخَافُ أَنْ يَأْتِيَنَا فَمَا شَعَرْتُ إِلَّا بِالْأَنْصَارِيِّ وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ قُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ وَمَا هُوَ أَجَاءَ الْغَسَّانِيُّ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَعْظَمُ مِنْ ذَاكَ، ‏‏‏‏‏‏طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ فَإِذَا الْبُكَاءُ مِنْ حُجَرِهِنَّ كُلِّهَا وَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَعِدَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى باب الْمَشْرُبَةِ وَصِيفٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ اسْتَأْذِنْ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَذِنَ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَحْتَ رَأْسِهِ مِرْفَقَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أُهُبٌ مُعَلَّقَةٌ وَقَرَظٌ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرْتُ الَّذِي قُلْتُ لِحَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّ سَلَمَةَ وَالَّذِي رَدَّتْ عَلَيَّ أُمُّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَبِثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً ثُمَّ نَزَلَ.
نبی ﷺ کس قدر لباس اور فرش پر اکتفاء کرتے تھے
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عبید بن حنین نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں عمر ؓ سے ان عورتوں کے بارے میں جنہوں نے نبی کریم کے معاملہ میں اتفاق کرلیا تھا، پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کا رعب سامنے آجاتا تھا۔ ایک دن (مکہ کے راستہ میں) ایک منزل پر قیام کیا اور پیلو کے درختوں میں (وہ قضائے حاجت کے لیے) تشریف لے گئے۔ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو میں نے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ عائشہ اور حفصہ ؓ ہیں پھر کہا کہ جاہلیت میں ہم عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ جب اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا (اور ان کے حقوق) مردوں پر بتائے تب ہم نے جانا کہ ان کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں لیکن اب بھی ہم اپنے معاملات میں ان کا دخیل بننا پسند نہیں کرتے تھے۔ میرے اور میری بیوی میں کچھ گفتگو ہوگئی اور اس نے تیز و تند جواب مجھے دیا تو میں نے اس سے کہا اچھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔ اس نے کہا تم مجھے یہ کہتے ہو اور تمہاری بیٹی نبی کریم کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے۔ میں (اپنی بیٹی ام المؤمنین) حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا میں تجھے تنبیہ کرتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔ نبی کریم کو تکلیف پہنچانے کے معاملہ میں سب سے پہلے میں ہی حفصہ کے یہاں گیا پھر میں ام سلمہ کے پاس آیا اور ان سے بھی یہی بات کہی لیکن انہوں نے کہا کہ حیرت ہے تم پر عمر! تم ہمارے معاملات میں دخیل ہوگئے ہو۔ صرف رسول اللہ اور آپ کی ازواج کے معاملات میں دخل دینا باقی تھا۔ (سو اب وہ بھی شروع کردیا) انہوں نے میری بات رد کردی۔ قبیلہ انصار کے ایک صحابی تھے جب وہ نبی کریم کی صحبت میں موجود نہ ہوتے اور میں حاضر ہوتا تو تمام خبریں ان سے آ کر بیان کرتا تھا اور جب میں نبی کریم کی صحبت سے غیر حاضر ہوتا اور وہ موجود ہوتے تو وہ نبی کریم کے متعلق تمام خبریں مجھے آ کر سناتے تھے۔ آپ کے چاروں طرف جتنے (بادشاہ وغیرہ) تھے ان سب سے آپ کے تعلقات ٹھیک تھے۔ صرف شام کے ملک غسان کا ہمیں خوف رہتا تھا کہ وہ کہیں ہم پر حملہ نہ کر دے۔ میں نے جو ہوش و حواس درست کئے تو وہی انصاری صحابی تھے اور کہہ رہے تھے کہ ایک حادثہ ہوگیا۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی۔ کیا غسان چڑھ آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بھی بڑا حادثہ کہ رسول اللہ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی۔ میں جب (مدینہ) حاضر ہوا تو تمام ازواج کے حجروں سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ نبی کریم اپنے بالا خانہ پر چلے گئے تھے اور بالا خانہ کے دروازہ پر ایک نوجوان پہرے دار موجود تھا میں نے اس کے پاس پہنچ کر اس سے کہا کہ میرے لیے نبی کریم سے اندر حاضر ہونے کی اجازت مانگ لو پھر میں اندر گیا تو آپ ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے جس کے نشانات آپ کے پہلو پر پڑے ہوئے تھے اور آپ کے سر کے نیچے ایک چھوٹا سا چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور ببول کے پتے تھے۔ میں نے نبی کریم سے اپنی ان باتوں کا ذکر کیا جو میں نے حفصہ اور ام سلمہ سے کہی تھیں اور وہ بھی جو ام سلمہ نے میری بات رد کرتے ہوئے کہا تھا۔ نبی کریم اس پر مسکرا دیئے۔ آپ نے اس بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام کیا پھر آپ وہاں سے نیچے اتر آئے۔
Narrated Ibn Abbas (RA) : For one year I wanted to ask Umar about the two women who helped each other against the Prophet ﷺ but I was afraid of him. One day he dismounted his riding animal and went among the trees of Arak to answer the call of nature, and when he returned, I asked him and he said, "(They were) Aisha (RA) and Hafsah (RA)." Then he added, "We never used to give significance to ladies in the days of the Pre-lslamic period of ignorance, but when Islam came and Allah mentioned their rights, we used to give them their rights but did not allow them to interfere in our affairs. Once there was some dispute between me and my wife and she answered me back in a loud voice. I said to her, Strange! You can retort in this way? She said, Yes. Do you say this to me while your daughter troubles Allahs Apostle? So I went to Hafsah (RA) and said to her, I warn you not to disobey Allah and His Apostle. I first went to Hafsah (RA) and then to Um Salama and told her the same. She said to me, O Umar! It surprises me that you interfere in our affairs so much that you would poke your nose even into the affairs of Allahs Apostle ﷺ and his wives. So she rejected my advice. There was an Ansari man; whenever he was absent from Allahs Apostle ﷺ and I was present there, I used to convey to him what had happened (on that day), and when I was absent and he was present there, he used to convey to me what had happened as regards news from Allahs Apostle ﷺ . During that time all the rulers of the nearby lands had surrendered to Allahs Apostle ﷺ except the king of Ghassan in Sham, and we were afraid that he might attack us. All of a sudden the Ansari came and said, A great event has happened! I asked him, What is it? Has the Ghassani (king) come? He said, Greater than that! Allahs Apostle ﷺ has divorced his wives! I went to them and found all of them weeping in their dwellings, and the Prophet ﷺ had ascended to an upper room of his. At the door of the room there was a slave to whom I went and said, "Ask the permission for me to enter." He admitted me and I entered to see the Prophet ﷺ lying on a mat that had left its imprint on his side. Under his head there was a leather pillow stuffed with palm fires. Behold! There were some hides hanging there and some grass for tanning. Then I mentioned what I had said to Hafsah (RA) and Um Salama and what reply Um Salama had given me. Allahs Apostle ﷺ smiled and stayed there for twenty nine days and then came down." (See Hadith No. 648, Vol. 3 for details)
Top