Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1080 - 1236)
Select Hadith
1080
1081
1082
1083
1084
1085
1086
1087
1088
1089
1090
1091
1092
1093
1094
1095
1096
1097
1098
1099
1100
1101
1102
1103
1104
1105
1106
1107
1108
1109
1110
1111
1112
1113
1114
1115
1116
1117
1118
1119
1120
1121
1122
1123
1124
1125
1126
1127
1128
1129
1130
1131
1132
1133
1134
1135
1136
1137
1138
1139
1140
1141
1142
1143
1144
1145
1146
1147
1148
1149
1150
1151
1152
1153
1154
1155
1156
1157
1158
1159
1160
1161
1162
1163
1164
1165
1166
1167
1168
1169
1170
1171
1172
1173
1174
1175
1176
1177
1178
1179
1180
1181
1182
1183
1184
1185
1186
1187
1188
1189
1190
1191
1192
1193
1194
1195
1196
1197
1198
1199
1200
1201
1202
1203
1204
1205
1206
1207
1208
1209
1210
1211
1212
1213
1214
1215
1216
1217
1218
1219
1220
1221
1222
1223
1224
1225
1226
1227
1228
1229
1230
1231
1232
1233
1234
1235
1236
مشکوٰۃ المصابیح - سود کا بیان - حدیث نمبر 2873
وعن عبد الله بن حنظلة غسيل الملائكة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلم أشد من ستة وثلاثين زنية . رواه أحمد والدراقطني وروى البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عباس وزاد : وقال : من نبت لحمه من السحت فالنار أولى به
سود کھانے پر وعید
حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سود کا ایک درہم یہ جاننے کے باوجود کھانا کہ یہ سود ہے چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ بڑا گنا ہے (احمد دارقطنی) اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے نیز بیہقی نے اس روایت میں حضرت ابن عباس کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص کا گوشت حرام مال سے پیدا ہوا ہو (یعنی جس شخص کی جسمانی نشو و نما حرام مال مثلًا سود و رشوت وغیرہ سے ہوئی ہو وہ شخص دوزخ ہی کے لائق ہے۔
تشریح
جس طرح مذکورہ بالا وعید اس شخص کے بارے میں فرمائی گئی ہے جو سود کا مال یہ جاننے کے باوجود کھائے کہ یہ مال سودی ذریعے سے حاصل شدہ ہے اسی طرح اس وعید کا تعلق اس شخص سے بھی ہے جس نے لاعلمی میں سود کا مال کھایا بشرطیکہ اس لاعلمی میں خود اس کی اپنی کوتاہی یا لاپرواہی کا دخل ہو۔ علماء کہتے ہیں کہ سود کھانے کے گناہ کو زنا کے گناہ سے بھی زیادہ سخت اور بڑا گناہ اس لئے کہا گیا ہے کہ سود کھانے والے کے حق میں اللہ تعالیٰ نے جتنی سخت اور غضب ناک تنبیہہ فرمائی ہے اتنی سخت اور غضب ناک تنبیہہ زنا کی کسی بھی گناہ کے بارے میں نہیں فرمائی ہے چناچہ سود کھانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یوں متنبہ کیا ہے ا یت (فاذنوا بحرب من اللہ ورسول) اعلان جنگ سن لو اللہ اور اس کے رسول کا یہ بات ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ کسی کے خلاف اعلان جنگ کا کیا مطلب ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جس شخص کے خلاف اعلان جنگ کرے یا جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے برسر جنگ ہو اس کی محرومی شقاوت بدبختی اور دنیا وآخرت کی مکمل تباہی و بربادی کا کیا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ سود کھانے والے کے حق میں اتنی سخت وعید اور اتنی شدید وغضب ناک تنبیہہ کا سبب یہ ہے کہ سود کے بارے میں عملی طور پر ہی گمراہی کا صدور نہیں ہوتا بلکہ سود کی پہچان مشکل ہونے کی وجہ سے عموماً اعتقادی گمراہی میں بھی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جس کا تنیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ سود کو حرام بھی نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ذہن وفکر اور قلب و دماغ پر گمراہی وکجروی کی اتنی ظلمت چھائی ہوئی ہے کہ وہ سود کو حلال سمجھتے ہیں اور یہ معلوم ہی ہے کہ سود کی حرمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کا مرتکب ہونا عملی گمراہی یعنی گناہ کبیرہ ہے جس پر معافی بھی ممکن ہے مگر سود کی حرمت کا اعتقاد نہ رکھنا بلکہ اس کو حلال سمجھنا اعتقادی گمراہی وکجروی ہے جس کا آخری نتیجہ کفر ہے اور اس کی معافی و بخشش ناممکن ہے جبکہ زنا ایک فعل ہے جس کی حرمت و برائی سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا جو شخص اس فعل میں مبتلا ہوتا ہے وہ بھی اس کی برائی کا بہرصورت اعتقاد رکھتا ہے یہاں تک کہ اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب وفرقے میں زنا ایک برائی ہی تصور کی جاتی ہے کوئی بھی اسے جائز اور حلال نہیں سمجھتا۔ اب رہی یہ بات کہ چھتیس کا عدد بطور خاص کیوں ذکر کیا گیا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس کا مقصد محض سود کی حرمت کی اہمیت جتانا ہے یا اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں اور ان میں جو سب سے ادنیٰ درجہ ہے وہ ایسا جیسا کہ کوئی شخص اپنی ماں سے صحبت کرے۔ حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سود (سے حاصل شدہ مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر آخر کار اس میں کمی یعنی بےبرکتی آجاتی ہے ان دونوں روایتوں کو ابن ماجہ نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے نیز دوسری روایت کو امام احمد نے بھی نقل کیا ہے۔ تشریح سودی ذرائع سے حاصل ہونیوالا مال بظاہر تو بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے مگر چونکہ سودی مال میں خیر و برکت کا کوئی جزء نہیں ہوتا اس لئے انجام کار وہ مال اس طرح تباہ و برباد اور ختم ہوجاتا ہے کہ اس کا نام ونشان تک باقی نہیں رہتا یہ محض ایک وعیدی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو روزانہ نظروں کے سامنے آتی رہتی ہے چناچہ اسی حقیقت کو قرآن کریم نے بھی ان الفاظ میں واضح کیا ہے ا یت (يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ) 2۔ البقرۃ 276) اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ انسان جو مال سود کے ذریعے حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نیست ونابود کردیتا ہے مگر انسان اپنی جائز محنت و حلال ذریعہ سے جو مال کما کر اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ بڑھا دیتا ہے گویا اس آیت میں سود اور صدقہ کو ایک ساتھ ذکر کر کے جہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان دونوں کی حقیقت میں تضاد ہے وہیں ان دونوں کے متضاد نتائج کی نشان دہی بھی کی گئی ہے چناچہ ان دونوں کی حقیقت میں تضاد تو یہ ہے کہ صدقہ میں بغیر کسی معاوضے اور بغیر کسی لالچ کے انسان اپنا مال محض اللہ کی خوشنودی کے لئے دوسروں کو دیتا ہے جبکہ سود میں بغیر کسی معاوضہ کے انسان محض مال وزر کی ہوس اور دولت کی فراوانی کے جذبے کے تحت دوسرے سے مال حاصل کرتا ہے اس طرح دونوں کاموں کے کرنے والوں کی نیت اور غرض بالکل جدا جدا ہوتی ہے کہ صدقہ کرنیوالا محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کے ثواب کے لئے اپنے مال کو ختم کرنے یا کم کرنے کا فیصلہ کر کے ایک زبردست ایثار کرتا ہے اور سود لینے والا محض دنیاوی حرص وطمع کی بناء پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے غصہ و ناراضگی سے بالکل بےپرواہ ہو کر اپنے موجودہ مال میں ناجائز زیادتی کا خواہش مند ہوتا ہے یہ تو سود اور صدقہ کی حقیقت کا تضاد تھا دونوں کے نتائج کا تضاد یہ ہے کہ جو مال اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر ناجائز طریقے یعنی سود سے حاصل کیا جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ مٹا دیتا ہے یا اس میں سے برکت اٹھا لیتا ہے اس کے برخلاف جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی و خوشنودی کی خاطر اپنا مال دوسروں کو دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مال کو بڑھا دیتا ہے بایں طور کہ اس کے موجودہ مال میں خیر و برکت عطاء فرماتا ہے۔ اس آیت کے ذمن میں دونوں کے نتائج میں تضاد کا مطلب مفسرین نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ سود کو مٹانے اور صدقہ کو بڑھانے کا تعلق آخرت سے ہے یعنی سود خوار کو اس کا مال آخرت میں کچھ نفع نہیں پہنچائے گا بلکہ عذاب ہی کا موجب بنے گا جبکہ صدقہ کرنیوالے کا مال آخرت میں اس کے لئے ابدی سعادتوں اور راحتوں کا ذریعہ بنے گا پھر سود کا مٹایا جانا اور صدقہ کا بڑھایا جانا آخرت سے تو تعلق رکھتا ہی ہے مگر اس کے کچھ آثار دنیا ہی میں مشاہدہ ہوجاتے ہیں چناچہ سود جس مال میں شامل ہوجاتا ہے بعض اوقات وہ مال اس طرح تباہ و برباد ہوجاتا ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی نہیں جیسا کہ سود اور سٹہ کے بازاروں میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے کروڑ پتی اور سرمایہ دار دیکھتے دیکھتے دیوالیہ ہوجاتے ہیں اگرچہ بےسود کی تجارتوں میں بھی نفع ونقصانات کے احتمال ضرور ہیں اور اسی وجہ سے بعض مرتبہ بےسود کی تجارت کرنیوالوں کو بھی کسی تجارت میں نقصان ہوجاتا ہے لیکن ایسا تاجر جو کل کروڑ پتی تھا اور آج ایک ایک پیسہ کی بھیک کا محتاج ہے یہ صرف سود اور سٹہ کے بازاروں ہی میں نظر آتا ہے۔ بہرکیف جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے سودی مال کا وقتی طور پر بڑھنا اور آخر میں تباہ و برباد ہوجانا محض ایک شرعی وعید کے درجے کی بات نہیں ہے بلکہ اہل تجربہ کے بیانات بھی اس پر شاہد ہیں کہ سود کا مال فوری اور وقتی طور پر کتنا ہی بڑھ جائے لیکن وہ عمومًا ایسا دیر پا نہیں ہوتا کہ اس کا فائدہ نسلوں تک پہنچے اگر ایسی کوئی نہ کوئی صورت پیش آجاتی ہے جو سودی مال کو ختم یا کم کردیتی ہے۔
Top