مشکوٰۃ المصابیح - وصیتوں کا بیان - حدیث نمبر 2755
14- بَابُ إِذَا قَالَ دَارِي صَدَقَةٌ لِلَّهِ وَلَمْ يُبَيِّنْ لِلْفُقَرَاءِ أَوْ غَيْرِهِمْ. فَهُوَ جَائِزٌ، وَيَضَعُهَا فِي الأَقْرَبِينَ أَوْ حَيْثُ أَرَادَ:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَبِي طَلْحَةَ حِينَ قَالَ أَحَبُّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرَحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، فَأَجَازَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ يَجُوزُ حَتَّى يُبَيِّنَ لِمَنْ وَالأَوَّلُ أَصَحُّ.
باب
باب: اگر کسی نے یوں کہا کہ میرا گھر اللہ کی راہ میں صدقہ ہے، فقراء وغیرہ کے لیے صدقہ ہونے کی کوئی وضاحت نہیں کی تو وقف جائز ہوا اب اس کو اختیار ہے اسے وہ اپنے عزیزوں کو بھی دے سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کیونکہ صدقہ کرتے ہوئے کسی کی تخصیص نہیں کی تھی
جب ابوطلحہ ؓ نے کہا کہ میرے اموال میں مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ بیرحاء کا باغ ہے اور وہ اللہ کے راستے میں صدقہ ہے تو نبی کریم نے اسے جائز قرار دیا تھا (حالانکہ انہوں نے کوئی تعیین نہیں کی تھی کہ وہ یہ کسے دیں گے) لیکن بعض لوگ (شافعیہ) نے کہا کہ جب تک یہ نہ بیان کر دے کہ صدقہ کس لیے ہے، جائز نہیں ہوگا اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
Top