مسند امام احمد - حضرت سائب بن عبداللہ کی حدیثیں۔ - حدیث نمبر 4101
حدیث نمبر: 4844
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّلَمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُأَبَا وَائِلٍ أَسْأَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا بِصِفِّينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ:‏‏‏‏ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ ؟ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا، فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى جَاءَ أَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ.
باب: آیت کی تفسیر ”وہ وقت یاد کرو جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے“۔
ہم سے احمد بن اسحاق سلمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعلیٰ نے، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ثابت نے، کہ میں ابو وائل ؓ کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے (خوارج کے متعلق) گیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے (جہاں علی اور معاویہ ؓ کی جنگ ہوئی تھی) ایک شخص نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص کتاب اللہ کی طرف صلح کے لیے بلائے؟ علی ؓ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن خوارج نے معاویہ ؓ کے خلاف علی ؓ کے ساتھ تھے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس پر سہل بن حنیف نے فرمایا تم پہلے اپنا جائزہ لو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے آپ کی مراد اس صلح سے تھی جو مقام حدیبیہ میں نبی کریم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اور جنگ کا موقع آتا تو ہم اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ (لیکن صلح کی بات چلی تو ہم نے اس میں بھی صبر و ثبات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا) اتنے میں عمر ؓ نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر ؓ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر ؓ نبی کریم کے پاس سے واپس آگئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکر نے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب! نبی کریم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ پھر سورة الفتح نازل ہوئی۔
Top