مشکوٰۃ المصابیح - بہترین صدقہ کا بیان - حدیث نمبر 2180
حدیث نمبر: 1071
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِيسَى بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَصَلَّى بِنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَهُ وَانْصَرَفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَالْتَفَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى أُنَاسًا يُصَلُّونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ يُسَبِّحُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا لَأَتْمَمْتُ صَلَاتِي يَا ابْنَ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَفَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى قَبَضَهُمُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21.
سفر میں نفل پڑھنا
حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ ہم ابن عمر ؓ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہم ان کے ساتھ لوٹے، انہوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: سنت پڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا: اگر مجھے نفلی نماز (سنت) پڑھنی ہوتی تو میں پوری نماز پڑھتا، میرے بھتیجے! میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ نے سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر ؓ کے ساتھ رہا، انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عمر ؓ کے ساتھ رہا، تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عثمان ؓ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، اور پوری زندگی ان سب لوگوں کا یہی عمل رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے (سورۃ الاحزاب: ٢١ ) ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١١ (١١٠١)، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٩)، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٦ (١٢٢٣)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٥ (١٤٥٩)، (تحفة الأشراف: ٦٦٩٣)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٢٢٤)، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: تو نماز ایسی عبادت میں بھی عبداللہ بن عمر ؓ نے سنت سے زیادہ پڑھنا مناسب نہ جانا، یہ عبداللہ بن عمر ؓ کا کمال اتباع ہے، اور وہ نبی اکرم کی اتباع میں بہت سخت تھے، یہاں تک کہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان مقامات پر ٹھہرتے جہاں نبی اکرم ٹھہرتے تھے، اور وہیں نماز ادا کرتے جہاں آپ نماز پڑھتے تھے۔ سفر میں نماز کی سنتوں کے پڑھنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اکثر کا یہ قول ہے کہ اگر پڑھے گا تو ثواب ہوگا، اور خود ابن عمر ؓ سے ترمذی کی روایت میں ظہر کی سنتیں پڑھنا منقول ہے، اور بعض علماء کا یہ قول ہے کہ سفر میں صرف فرض ادا کرے، سنتیں نہ پڑھے، ہاں عام نوافل پڑھنا جائز ہے، نبی کریم اپنے اسفار مبارکہ میں فرض نماز سے پہلے یا بعد کی سنتوں کو نہیں پڑھتے تھے، سوائے فجر کی سنت اور وتر کے کہ ان دونوں کو سفر یا حضر کہیں نہیں چھوڑتے تھے، نیز عام نوافل کا پڑھنا آپ سے سفر میں ثابت ہے۔
Top