مسند امام احمد - - حدیث نمبر 1010
حدیث نمبر: 1010
حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ عَمْرٍو الدَّارِمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَصُرِفَتِ الْقِبْلَةُ إِلَى الْكَعْبَةِ بَعْدَ دُخُولِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِشَهْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ أَكْثَرَ تَقَلُّبَ وَجْهِهِ فِي السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِمَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَهْوَى الْكَعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَعِدَ جِبْرِيلُ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ وَهُوَ يَصْعَدُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏يَنْظُرُ مَا يَأْتِيهِ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ سورة البقرة آية 144، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَانَا آتٍ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ صُرِفَتْ إِلَى الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسٍ وَنَحْنُ رُكُوعٌ، ‏‏‏‏‏‏فَتَحَوَّلْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَبَنَيْنَا عَلَى مَا مَضَى مِنْ صَلَاتِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ حَالُنَا فِي صَلَاتِنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143.
قبلہ کا بیان
براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کی، اور آپ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے دو مہینہ بعد قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل کردیا گیا، رسول اللہ ﷺ جب بیت المقدس کی جانب نماز پڑھتے تو اکثر اپنا چہرہ آسمان کی جانب اٹھاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے دل کا حال جان لیا کہ آپ خانہ کعبہ کی جانب رخ کرنا پسند فرماتے ہیں، ایک بار جبرائیل (علیہ السلام) اوپر چڑھے، آپ ان کی طرف نگاہ لگائے رہے، وہ آسمان و زمین کے درمیان اوپر چڑھ رہے تھے، آپ انتظار میں تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کیا حکم لاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: قد نرى تقلب وجهك في السماء (سورۃ البقرہ: ١٤٤ ) ، ہمارے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا: قبلہ کعبہ کی طرف بدل دیا گیا، ہم دو رکعتیں بیت المقدس کی جانب پڑھ چکے تھے، اور رکوع میں تھے، ہم اسی حالت میں خانہ کعبہ کی جانب پھرگئے، ہم نے اپنی پچھلی نماز پر بنا کیا اور دو رکعتیں اور پڑھیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل ہماری ان نماز کا کیا حال ہوگا جو ہم نے بیت المقدس کی جانب پڑھی ہیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: وما کان الله ليضيع إيمانکم اللہ تعالیٰ تمہاری نماز کو ضائع کرنے والا نہیں (سورة البقرة: 143) ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٩١٠، ومصباح الزجاجة: ٣٦٣)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التفسیر ١٢ (٤٤٩٢)، صحیح مسلم/المساجد ٢ (٥٢٥)، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٨ (٣٤٠)، سنن النسائی/الصلاة ٢٢ (٤٨٩)، القبلة ١ (٧٤٣) (منکر) (سند میں ابوبکر بن عیاش سئ الحفظ ہیں، اس لئے تحویل قبلہ کے بارے میں ١٨ مہینہ کا ذکر اور یہ کہ مدینہ جانے کے دو ماہ بعد تحویل قبلہ ہوا، یہ چیز شاذ اور ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: فتح الباری ١ /٩٧، البانی صاحب نے بھی انہیں زیادات کی وجہ سے حدیث پر منکر کا حکم لگایا ہے، ورنہ اصل حدیث صحیحین میں ہے کہ رسول اکرم نے بیت المقدس کے طرف ( ١٦ ) یا ( ١٧ ) مہینے تک صلاة پڑھی ... الخ، اسی واسطے بوصیری نے حدیث کے ابتدائی دو فقرے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ اس کی سند صحیح ہے، اور رجال ثقات ہیں، اور بخاری و مسلم وغیرہ نے اس طریق سے مذکور نص کے علاوہ بقیہ حدیث روایت کی ہے )
وضاحت: ١ ؎: آپ قبلہ کو کعبہ کی طرف ہونا پسند کرتے تھے، اس خیال سے کہ عربوں کی عبادت گاہ اور مرکز وہی تھا، اور اس میں اس بات کی امید اور توقع تھی کہ عرب جلد اسلام کو قبول کرلیں گے، اور یہودی رسول اکرم کے سخت دشمن تھے، ان کا قبلہ بیت المقدس تھا، اس وجہ سے بھی آپ کو ان کی موافقت پسند نہیں تھی، اور یہ آپ کا کمال ادب تھا کہ اللہ تعالیٰ سے قبلے کے بدلنے کا سوال نہیں کیا، بلکہ دل ہی میں یہ آرزو لئے رہے، اس خیال سے کہ اللہ رب العزت دلوں کی بات بھی خوب جانتا ہے۔
Top