سنن ابنِ ماجہ - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 1676
حدیث نمبر: 3869
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا مِنْ عَبْدٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ فِي صَبَاحِ كُلِّ يَوْمٍ،‏‏‏‏ وَمَسَاءِ كُلِّ لَيْلَةٍ:‏‏‏‏ بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ،‏‏‏‏ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَيَضُرَّهُ شَيْءٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ أَبَانُ قَدْ أَصَابَهُ طَرَفٌ مِنَ الْفَالِجِ،‏‏‏‏ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ أَبَانُ:‏‏‏‏ مَا تَنْظُرُ إِلَيَّ؟ أَمَا إِنَّ الْحَدِيثَ كَمَا قَدْ حَدَّثْتُكَ،‏‏‏‏ وَلَكِنِّي لَمْ أَقُلْهُ يَوْمَئِذٍ لِيُمْضِيَ اللَّهُ عَلَيَّ قَدَرَهُ.
صبح و شام کی دعا۔
عثمان بن عفان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو کوئی بندہ ہر دن صبح اور شام تین بار یہ کہے: بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شيء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم اس اللہ کے نام سے جس کے نام لینے سے زمین اور آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے، وہ سمیع وعلیم (یعنی سننے اور جاننے والا ہے) تو اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ راوی کہتے ہیں: ابان کچھ فالج سے متاثر ہوگئے تو وہ شخص انہیں دیکھنے لگا، ابان نے اس سے کہا: مجھے کیا دیکھتے ہو؟ سنو! حدیث ویسے ہی ہے جیسے میں نے تم سے بیان کی، لیکن میں اس دن یہ دعا نہیں پڑھ سکا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر مجھ پر نافذ کر دے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الأدب ١١٠ (٥٠٨٨، ٥٠٨٩)، سنن الترمذی/الدعوات ١٣ (٣٣٨٨)، (تحفة الأشراف: ٩٧٧٨)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٦٢، ٧٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اب یہ اعتراض نہ ہونا چاہیے کہ پھر اس دعا کے پڑھنے سے کیا حاصل، کیونکہ بندے کو یہ علم کہاں ہے کہ قضا مبرم (قطعی) ہے یا معلق، اور احتمال ہے کہ قضائے معلق ہو اس دعا کے پڑھنے پر یعنی اگر یہ دعا پڑھ لے گا تو اس صدمے سے محفوظ رہے گا اور جب دعا پڑھ لے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ تقدیر میں اس آفت کا ٹل جانا دعا کی برکت سے تھا، اور اگر نہ پڑھے اور آفت آجائے تو معلوم ہوا کہ ہماری تقدیر میں یہ مصیبت آنی ضرور لکھی تھی، اب ہم دعا کیسے پڑھ سکتے تھے کیونکہ تقدیر سے بچنا محال ہے۔
Top