مشکوٰۃ المصابیح - - حدیث نمبر 1710
حدیث نمبر: 1710
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ عَائِشَةَعَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ صَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ أَرَهُ صَامَ مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا.
نبی ﷺ کے روزے
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے نبی اکرم ﷺ کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے ہی رکھتے جائیں گے، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان روزے رکھتے تھے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ٣٤ (١١٥٦)، سنن النسائی/الصوم ١٩ (٢١٧٩)، (تحفة الأشراف: ١٧٧٢٩)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ٥٢ (١٩٦٩)، سنن ابی داود/الصوم ٥٩ (٢٤٣٤)، سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦)، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٦)، مسند احمد (٦/٣٩، ٨٠، ٨٤، ٨٩، ١٠٧، ١٢٨، ١٤٣، ١٥٣، ١٦٥، ١٧٩، ٢٣٣، ٢٤٢، ٢٤٩، ٢٦٨) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: شعبان کے مہینے میں آپ کے کثرت سے روزے رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینے میں انسان کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، تو آپ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال اللہ کے پاس حالت روزے میں پیش ہوں، اور چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے یہ روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتے تھے اس لیے پندرہویں شعبان کے بعد بھی آپ کے لیے روزہ رکھنا جائز تھا، اس کے برخلاف امت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزے نہ رکھے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار ہے۔
Top